Quantcast
Channel: UrduChannel
Viewing all 652 articles
Browse latest View live

Adab un Nabi


Injeel , Injil Urdu Translation

Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi

$
0
0

شکست زنداں کا خواب

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

———————————————————————

الوداع

اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع
الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع
الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع
تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے

 

آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے ‘قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر
روح ہر شب کو نکل کر میرے جسم زار سے
آ کے سر ٹکرائے گی تیرے در و دیوار سے

 

ہائے کیا کیا نعمتیں مجھ کو ملی تھیں بے بہا
یہ خموشی یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
وائے یہ جاں بخش بستاں ہائے یہ رنگیں فضا
مر کے بھی ان کو نہ بھولے گا دل درد آشنا
مست کوئل جب دکن کی وادیوں میں گائے گی
یہ سبک چھاؤں ببولوں کی بہت یاد آئے گی

 

کل سے کون اس باغ کو رنگیں بنانے آئے گا
کون پھولوں کی ہنسی پر مسکرانے آئے گا
کون اس سبزے کو سوتے سے جگانے آئے گا
کون جاگے گا قمر کے ناز اٹھانے کے لیے
چاندنی راتوں کو زانو پر سلانے کے لیے

 

آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش
میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مے فروش
رس کی بوندیں جب اڑا دیں گی گلستانوں کے ہوش
کنج رنگیں میں پکاریں گی ہوائیں ‘جوش جوش
سن کے میرا نام موسم غمزدہ ہو جائے گا
ایک محشر سا گلستاں میں بپا ہو جائے گا

 

صبح جب اس سمت آئے گی برافگندہ نقاب
آہ کون اس دل کشا میداں میں چھیڑے گا رباب
اس افق پر شب کو جب انگڑائی لے گا ماہتاب
چاندنی کے فرش پر لہرائے گا کس کا شباب
جگمگائے گی چمن میں پنکھڑی کس کے لئے
رنگ برسائے گی ساون کی جھڑی کس کے لئے

 

گھر سے بے گھر کر رہی ہے آہ فکر روزگار
سرنگوں ہے فرط غیرت سے اب و جد کا وقار
خلعت ماضی ہے جسم زندگی پر تار تار
پھر بھی آنکھوں میں ہے آبائی عمارت کا خمار
شمع خلوت میں ہے روشن تیرگی محفل میں ہے
رخ پے گرد بیکسی شان ریاست دل میں ہے

 

کوچ کا پیغام لے کر آ گیا مہر منیر
گھر کا گھر ہے وقف ماتم زرد ہیں برنا و پیر
رخصت بلبل سے نالاں ہیں چمن کے ہم صفیر
آ رہی ہے کان میں آواز گویاؔ و بشیرؔ
چھٹ رہا ہے ہات سے دامن ملیح آباد کا
رنگ فق ہے عزت دیرینۂ اجداد کا

 

کیا بتاؤں دل پھٹا جاتا ہے میرا ہم نشیں
آئیں گے یاں خرمن اجداد کے جب خوشہ چیں
آ کے دروازے پہ جیسے ہی جھکائیں گے جبیں
گھر کا سناٹا سدا دے گا یہاں کوئی نہیں
جود و بخشش کا کلیجہ غرق خوں ہو جائے گا
میرے گھر کا پرچم زر سرنگوں ہو جائے گا

 

آہ اے دور فلک تیرا نہیں کچھ اعتبار
مٹ کے رہتی ہے ترے جور خزاں سے ہر بہار
نوع انساں کو نہیں تیری ہوائیں سازگار
فکر دنیا اور شاعر تف ہے اے لیل و نہار
موج کوثر وقف ہو اور تشنہ کامی کے لئے
خواجگی رخت سفر باندھے غلامی کے لئے

 

آ گلے مل لیں خدا حافظ گلستان وطن
اے ‘امانی گنج کے میدان اے جان وطن
الوداع اے لالہ زار و سنبلستان وطن
السلام اے صحبت رنگین یاران وطن
حشر تک رہنے نہ دینا تم دکن کی خاک میں
دفن کرنا اپنے شاعر کو وطن کی خاک میں


 

حسن اور مزدوری

ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار

 

چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا

 

گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں

 

ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو
کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو

 

دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت
ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت

 

پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی
نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی

 

غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے
عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے

 

چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب
ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب

 

اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں
آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!

 

حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے
دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے

 

فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار
جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار

 

آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے
صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے

 

اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے
جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے

 

بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے
جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے

 

نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار
ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار

 

کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے
انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے

 

مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے
جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے

 

فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے
جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے

 

نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ
کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟

 

ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر
سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر

 

باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا
آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا

 

سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی
اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی

 

جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا
اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا

 

اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟
آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟

 

گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟
اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟

 

سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟
پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟

 

دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے
اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے


 

ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب

کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا
باغ انسانی میں چلنے ہی پہ ہے باد خزاں
آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخش خود سری کی باگ پر
تیغ کا پانی چھڑک دو جرمنی کی آگ پر
سخت حیراں ہوں کہ محفل میں تمہاری اور یہ ذکر
نوع انسانی کے مستقبل کی اب کرتے ہو فکر
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے
ہندیوں کے جسم میں کیا روح آزادی نہ تھی
سچ بتاؤ کیا وہ انسانوں کی آبادی نہ تھی
اپنے ظلم بے نہایت کا فسانہ یاد ہے
کمپنی کا پھر وہ دور مجرمانہ یاد ہے
لوٹتے پھرتے تھے جب تم کارواں در کارواں
سر برہنہ پھر رہی تھی دولت ہندوستاں
دست کاروں کے انگوٹھے کاٹتے پھرتے تھے تم
سرد لاشوں سے گڈھوں کو پاٹتے پھرتے تھے تم
صنعت ہندوستاں پر موت تھی چھائی ہوئی
موت بھی کیسی تمہارے ہات کی لائی ہوئی
اللہ اللہ کس قدر انصاف کے طالب ہو آج
میر جعفرؔ کی قسم کیا دشمن حق تھا سراجؔ
کیا اودھ کی بیگموں کا بھی ستانا یاد ہے
یاد ہے جھانسی کی رانی کا زمانہ یاد ہے
ہجرت سلطان دہلی کا سماں بھی یاد ہے
شیر دل ٹیپوؔ کی خونیں داستاں بھی یاد ہے
تیسرے فاقے میں اک گرتے ہوئے کو تھامنے
کس کے تم لائے تھے سر شاہ ظفر کے سامنے
یاد تو ہوگی وہ مٹیا برج کی بھی داستاں
اب بھی جس کی خاک سے اٹھتا ہے رہ رہ کر دھواں
تم نے قیصر باغ کو دیکھا تو ہوگا بارہا
آج بھی آتی ہے جس سے ہائے اخترؔ کی صدا
سچ کہو کیا حافظے میں ہے وہ ظلم بے پناہ
آج تک رنگون میں اک قبر ہے جس کی گواہ
ذہن میں ہوگا یہ تازہ ہندیوں کا داغ بھی
یاد تو ہوگا تمہیں جلیانوالا باغ بھی
پوچھ لو اس سے تمہارا نام کیوں تابندہ ہے
ڈائرؔ گرگ دہن آلود اب بھی زندہ ہے
وہ بھگتؔ سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
اہل آزادی رہا کرتے تھے کس ہنجار سے
پوچھ لو یہ قید خانوں کے در و دیوار سے
اب بھی ہے محفوظ جس پر طنطنہ سرکار کا
آج بھی گونجی ہوئی ہے جن میں کوڑوں کی صدا
آج کشتی امن کے امواج پر کھیتے ہو کیوں
سخت حیراں ہوں کہ اب تم درس حق دیتے ہو کیوں
اہل قوت دام حق میں تو کبھی آتے نہیں
بینکی اخلاق کو خطرے میں بھی لاتے نہیں
لیکن آج اخلاق کی تلقین فرماتے ہو تم
ہو نہ ہو اپنے میں اب قوت نہیں پاتے ہو تم
اہل حق روشن نظر ہیں اہل باطن کور ہیں
یہ تو ہیں اقوال ان قوموں کے جو کمزور ہیں
آج شاید منزل قوت میں تم رہتے نہیں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اب کس لئے کہتے نہیں
کیا کہا انصاف ہے انساں کا فرض اولیں
کیا فساد و ظلم کا اب تم میں کس باقی نہیں
دیر سے بیٹھے ہو نخل راستی کی چھاؤں میں
کیا خدا ناکردہ کچھ موچ آ گئی ہے پاؤں میں
گونج ٹاپوں کی نہ آبادی نہ ویرانے میں ہے
خیر تو ہے اسپ تازی کیا شفا خانے میں ہے
آج کل تو ہر نظر میں رحم کا انداز ہے
کچھ طبیعت کیا نصیب دشمناں ناساز ہے
سانس کیا اکھڑی کہ حق کے نام پر مرنے لگے
نوع انساں کی ہوا خواہی کا دم بھرنے لگے
ظلم بھولے راگنی انصاف کی گانے لگے
لگ گئی ہے آگ کیا گھر میں کہ چلانے لگے
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزیدؔ و شمرؔ تھے اور آج بنتے ہو حسینؔ
خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں

———————————————————————

The post Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi appeared first on UrduChannel.

Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto

$
0
0

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔

ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر’’ پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔۔۔۔فسٹ کلاس کھیل۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں!‘‘

بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’’پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔

فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔۔۔۔۔۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔

یہودی، پنجابی، مرہٹی،کشمیری،گجراتی،بنگالی،اینگلوانڈین،فرانسیسی،چینی،جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔۔۔۔۔۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔

اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔

اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔

اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔

آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت،گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔

میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا ۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔

اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔۔۔۔۔۔صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔۔۔۔۔۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔

میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتہ۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔

ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔

ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔

میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔

ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی،اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔

میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔

دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔۔۔۔

میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا۔’’آجاؤ!‘‘

دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔

اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔

وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔

قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔’’ آپ کون ہیں؟‘‘

اس نے مختصر سا جواب دیا۔’’ممد بھائی!‘‘

میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مشہور د ادا!‘‘

میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔’’ہاں ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ممد ہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کا مشہوردادا۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘

میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا’’ارے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تیرا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک دم جلدی آ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘

ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔ ۔۔۔لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔

کھولی میں کرسی نہیں ۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘

پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔

اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔۔۔۔۔۔نیفے میں۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘

ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘

چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر آگیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔۔۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔

ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔۔۔۔۔۔سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ملیریا ہے۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔‘‘

ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔‘‘

ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔’’نہیں ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔’’تو ٹھیک ہے۔‘‘

’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔۔۔۔۔۔

’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔‘‘

ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔’’کیوں؟‘‘

’’بس۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔

ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا’’دس روپے!‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔

ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘

ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘

ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہوگیا۔’’ میں کب لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے!‘‘

’’سالا۔۔۔۔۔۔ہم سے فیس لیتے ہو۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔

ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔

ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘

تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘

ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔۔۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘

میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘

سالا۔۔۔۔۔۔ہم کیا نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ کشمیری ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘

میں پانی پانی ہوگیا۔

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔ تم خوش رہو۔‘‘

ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔

ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘

میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔

بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔

پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔

اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میںیہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔

لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔

میں جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ چیز۔۔۔۔۔۔یہ خنجر۔۔۔۔۔۔ یہ چھری۔۔۔۔۔۔یہ چاقو۔۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ آرٹ۔۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔۔۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔بندوق، پستول سب بکواس ہے۔‘‘

ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔

جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔

وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔

اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔

میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔۔۔۔۔۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔۔۔۔۔۔

ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔

میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔‘‘ ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ اس نے کہا’’ میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘

ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔’’جا۔۔۔۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘

اور اس کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔

ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔

دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی،انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔

چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔۔۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا۔۔۔۔۔۔لیکن مر گیا۔۔۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔

مقدمہ چلنا تھا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔

وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘

عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔

اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔۔۔۔۔۔مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔‘‘

اور وہ سوچتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔۔۔۔۔۔لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘

میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔۔۔۔۔۔سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہار خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘

’’تو میں منڈوادوں؟‘‘ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا۔’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘

میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘

دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔۔۔۔۔۔

مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔

عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔

شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔

اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔’’ کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘

اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘

اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔’’سالا۔۔۔۔۔۔ اپن کو یہ غم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘

پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا۔’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔۔۔۔۔۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔۔۔۔۔۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔۔۔سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔۔۔۔اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔ اب جا اپنی ماں کے۔۔۔۔۔۔‘‘

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔

————–

The post Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto appeared first on UrduChannel.

Dalan Wala A Short Story by Qurratul Ain Haider

$
0
0

ہر تیسرے دن ‘ سہ پہر کے وقت ایک بے حد دُبلا پتلا بوڑھا، گھسے اور جگہ جگہ سے چمکتے ہوئے سیاہ کوٹ پتلون میں ملبوس‘ سیاہ گول ٹوپی اوڑھے، پتلی کمانی والی چھوٹے چھوٹے شیشوں کی عینک لگائے، ہاتھ میں چھڑی لیے برساتی میں داخل ہوتا اور چھڑی کو آہستہ آہستہ بجری پر کھٹکھٹاتا ۔ فقیرا باہر آکر باجی کو آواز دیتا۔ ’’بیٹا۔ چلیے۔ سائمن صاحب آگئے۔‘‘ بوڑھا باہر ہی سے باغ کی سڑک کا چکر کاٹ کر پہلو کے برآمدے میں پہنچتا۔ ایک کونے میں جاکر اور جیب میں سے میلا سا رومال نکال کر جھکتا، پھر آہستہ سے پکارتا ’’ ریشم __ ریشم __ ریشم__‘‘ ریشم دوڑتی ہوئی آتی۔ باجی بڑے آرٹسٹک انداز میں سرود کندھے سے لگائے برآمدے میں نمودار ہوتیں۔ تخت پربیٹھ کر سرود کا سرخ بنارسی غلاف اُتارتیں اور سبق شروع ہوجاتا۔ بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اُسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہوجاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اُٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔ جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں‘ اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’’ گول کمروں‘‘ میںایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر Status Symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی‘ کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہار مونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا __ ’’ بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے __‘‘ ’’ اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا ‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔ ’’ ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے‘ مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’’ اُن‘‘ سے کہہ دیا ہے ۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے ، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’’ جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن ‘‘ وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پانّو ‘ توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔ پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا دیا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے‘ بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ ؎ خزاں نے آکے چمن کو اُجاڑ دینا ہے مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کراور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔ اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔ وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار اُن کا تذکرہ کرتی ہوں۔ میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زادبہن تھیں‘ اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علی گڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میںمصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا __ ’’ میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘ باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔ ’’ لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا: کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خود دار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔ پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں ’’ مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو‘‘ ۔ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اُس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے اُن کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔ ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور‘ اکل کھری اور اپنے سیامی حُسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’ اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (Vamp) عورتوں کی سی ہیں۔‘‘ باجی کہتیں ’’ عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے‘ چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رُخی برتو تو خوشامد شروع کردے گی__‘‘ ’’ اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی‘ باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں: یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘ باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں‘ جو اُن کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اورباجی سے ان کی شادی طے ہوچکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں‘ غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔ غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے ، جن کی علی گڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دُکان تھی‘ پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔ سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پانوّ چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اُسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا : ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘ فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس ‘ نہر کی منڈیر پر بیٹھا‘ اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے‘ تو سکھ نندن خانساماںنے اس سے پوچھا تھا: کیوں بے نوکری کرے گا۔؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا: مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’’ اوپر کا کام‘‘ کر رہا تھا اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔ جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پُرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمدپر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں__ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند ‘‘__ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہا بھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پرپہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔ باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری ‘ جسے اُردو میں ’’ چند شوہری ‘‘ کہتے ہیں‘ مادرانہ نظام کی یادگار ہے ۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے‘ ہزاروں سال قبل ، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میںانہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علی گڑھ یونی ورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔ ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اُتری‘ اُسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پانو مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں اُلجھ گئی۔ اس کی ایک ران بُری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا‘ تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔ جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اُترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے‘‘۔ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’ کم بخت جانے کس طرح جاکر باڑکے تاروں میں اُلجھ گئی جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بُری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘ میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ دار میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جاکر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہوچکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔ ساری دُنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پربیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی ’’ کیا بات ہے بی بی؟ ‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ ریشم کو__ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘ ’’ آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘ ’’ ہم __ ہم کملا وملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اُسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اورجرم کا تھوڑا سا پر اُشچت بھی ہوگیا مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔ ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’’ گھوڑا ہسپتال ‘‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔ ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’ انہوں نے دریافت کیا۔ مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘ مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔ مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اُٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی‘ اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی ، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’ سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اُسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اُسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اُسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔ یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پُر فضا خو ب صورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز‘ ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے ۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’’مورننگ روم‘‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’’ ہوم‘‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’’ گول کمر وں‘‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’’ کوئی ہائے‘‘ اور ’’ عبدل چھوٹا حاضری مانگتا ‘‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (Bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پراتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جوشمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھوچکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے‘ خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متلعق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔ مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں ۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھول دار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے سازو سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔ ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’’ انگلش اسٹورز‘‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔ اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’’ ہوم‘‘ کہتے تھے اور چند سال اُدھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوب صورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔ لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔ کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اُردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اُسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اُسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اُس کے بھونپو کا رُخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی__ There was a rich merchant in London did stay. Who had for his daughter an uncommon liking. Her name it was Diana, she was sixteen years old, And had a large fortune in silver and gold. ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔ جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اُس کا نام اُس کاڈائنا سو لے برش کا عُومر جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا As Diana was walking in the garden one day. Her father came to her and thus did he say: Go dress yourself up in gorgeous atray, For you will have a husband both gallant and gay. ایک دن جب ڈائنا بگیچہ میں تھی باپ آئی اور بولی بیٹی جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا O father, dear father I’ve made up my mind, To marry at present I don’t feel inclined. And all my large fortune every day adore, if you let live me single a year or two more. ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں Then gave the father a gallant reply: if you don’t be this young man’s bride, I’ll leave all your fortune to the fearest of things, And you should not reapthe benefit of single thing. تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں As wilikins was walking in the garden one day, He found his dear Diana lying dead on the way. A cup so fearful that lay by her side. And wilikins doth fainteth with a cry in his eye ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا اور ایک چٹّھی جس میں لکھا: ’’ زہر پی کے مرا‘‘ جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بے چاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کردیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔ اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول ‘‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروںاور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے جن پر لکھا تھا: بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی موت کے کنویں میں آج شب کو سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی__ ’’ بیگم صاحب __ بڑی بیٹا __ بی بی __زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں__ عورت ہے کہ شیر کی بچّی __ ہرے رام__ ہرے رام__‘‘ دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔ چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبوکے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمک دار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوف ناک‘ بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’’ برجیس‘‘ پہنے‘ لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اُکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اُتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘‘ آیا تھا جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جومرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں__ یہ کون پُر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیںاور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کوبھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔ ’’ دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس ‘‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر‘ جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سُنی‘ یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیانے سرکس میں نوکری کرلی۔ ’’ ڈائنا بیکٹ نے __؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’ جی ہاں بڑی بٹیا__ پلپلی صاحب کی مسیا سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی گریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کر تے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے__ یہ تو سچ ہے۔ وہ گریب تو بہت تھی بڑی بٹیا__‘‘ ’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا جاؤ ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے ۔ ’’ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔ اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا۔ سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم‘ حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتھے۔ سال رواں کی بہترین فلم ’’چیلنج‘‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے پلیڈیم سنیما میں۔ آج شب کو اور سال رواں کی بہترین فلم ’’دہلی ایکسپریس‘‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے‘ راکسی سنیما میں آج شب کو اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’’کام‘‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔ ’’اچھوت کنیا‘‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیوٹیگور کی بھانجی دیویکارانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’’جیون لتا‘‘ جس میں سبیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں__ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی__‘‘ اور ’’جیون پر بھات‘‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’’کام‘‘ کررہی تھیں‘ جو اب رینو کا دیوی کہلاتی تھی‘ جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا‘ مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندستان جس کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’’نکالنے‘‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا__ پیتم پیاری پریت نبھانا__‘‘‘ اور ’’چور چراوے مال خزانہ‘ پیانینوں کی نندیا چرواے‘‘ اور__ ’’تم اور میں اور منا پیارا__ گھر وا ہوگا سورگ ہمارا__‘‘ غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پررکھ کر کہتیں__ ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے برمانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی__ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘ ’’بے حیائی تیرا آسرا__‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پانو میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔ ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھالایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’’چنڈی داس‘‘ فلم دیکھ کر لوٹی تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکراسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی__ ’’ناجو ادا سے سرم وحیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو__‘‘ اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی__ ’’انا جی__ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے__‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں ’’اری تو ابھی بہت جئے گی__ اور اے جل دھریا__ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے__ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے‘ مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا__ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں__ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے__ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے__!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی__ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ ’’پرانے چاول__؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں__ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں__‘‘ لہٰذا میں سرجھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔ اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں‘ میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ اور ایک طرف کو بھاگے چلے جارہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑکھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھالیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔ میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گرائونڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے__ ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑجاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹرسائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تاکہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘ اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا‘ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت__ دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کررہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے درپے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔ سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔ کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلائوز پہنتی تھیں‘ وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سرنیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جاکر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔ پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا۔ ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی__‘‘ ’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے‘ اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا__‘‘ باجی نے اپنی خوب صورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔ ’’دراصل__ وہ__ میں__ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل__‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے باوضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی‘ سات سمندر پار ہوآئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے__‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔ ’’شرعی پردہ تو دراصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔ ’’روزے نماز کی پابند‘ شرم وحیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی__‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔ ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں‘ اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘ جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غم ناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گائو، فلاں قصہ سنائو زبیدہ آپا‘ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لائو اور سب مل کر ناچو__ ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں۔ ’’مرے کے لیے تو صبر آجاتا ہے‘ ریحانہ خاتون__ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں__‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا__ ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سنائو زبیدہ آپا کو__‘‘ ’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھنے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا۔ ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر جس کے پاس بہت کپڑا__ اور__ چاندی__ اور__ دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی‘ میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔ شام کو میں نے وملا سے کہا__ ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں__‘‘ ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی__ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا__ تو وہ کلکتہ یونی ورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونی ورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا__ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں‘ تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘ ’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں‘ اور جب سے ان کویہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوب صورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہائوس میں پڑھ رہی ہے‘ تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے__ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیج پھیر رہی تھیں تو میں نے‘ جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی__ ’’ہمیں معلوم ہوگیا__ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو__ جائو‘ سوجائو__ میں بالکل ٹھیک ہوں__ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘ ’’زبیدہ آپا__ دروازہ کھولیے__‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جائو تم لوگ__ ورنہ میں پھر چیخوں گی__‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔ صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا__ ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا__ میں ایک چلہ کررہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے‘ میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات__ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جاء نماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے__ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیاکرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا__‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں__ ’’مگر زبیدہ آپا__ آپ تو__ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونی ورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی تو ہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (Hallucination) ہوا ہوگا__ گدھے کے برابر کتا__ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا__!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ ’’ریحانہ خاتون__‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچائوں کا سایہ تمہارے سرپر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں‘ اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ‘ سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے__ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے‘ دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے__ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو__‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جائوں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔ اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔ ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’’چائینا مین‘‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے‘ یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔ مسٹر پٹیر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے‘ اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’’خدا باپ کا شکر ہے‘‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔ اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اوراطمینان سے اظہارِ خیال کیا___ ’’ ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے___ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔ تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اُتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اُتارکر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا___ ’’ یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا‘ اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا___ ’’ بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا___ اپنا ہی گھر سمجھو‘ اچھا___ بائی بائی___ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ یہ ایک مسلمان بی بی تھیں‘ جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہو میوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک موٹی سی اُردو کتاب نکال کر دکھائی جو ان کی ہومیو پیتھک ڈاکٹری کا کورس تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’ دی رائل تحفہ ہارمونیم گائیڈ سیریز‘‘ کے رسالوں کے ذریعہ انہوں نے اس فن میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے اور انہوں نے ’’اے ماؤ، بہنو، بیٹو، دنیا کی عزت تم سے ہے ’’ سپاٹ اور بے سری آواز میں ’’ باجے‘‘ پر گا کر سنائی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ آزادیِ نسواں کی قائل ہیں اور اپنی مرضی سے کتخدائی کریں گی___ تیسرے روز مسٹر سردار خاں دوبارہ نمودار ہوئے۔ وہ تانگہ ساتھ لے کر آئے تھے جس میں بٹھا کر ہومیوپیتھک لیڈی ڈاکٹر کو ہم راہ لے گئے۔ مسٹر پیٹر رابرٹ خاں اس کے بعد کبھی نہ آئے۔ دنیا میں بڑے عجیب و غریب واقعات ہوا کرتے تھے۔ نیگسؔ ہمارا سیاہ رنگ اور سفید کانوں والا بدشکل اور چھوٹا سا دوغلا کتّا تھا۔ وہ دن بھر برساتی کے کونے میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہتا تھا۔ چونکہ وہ نجس تھا‘ یعنی کتّا تھا اس لیے اُسے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہ تھی۔ جاڑوں میں وہ ایک کوٹھری میں پڑے ہوئے اپنے کھٹولے پر سو رہتا۔ ریشم کوہان نکال کر اس پر غرّاتی تو وہ اس کا بھی بُرا نہ مانتا۔ وہ بے حد وفادار اور مرنجان مرنج طبیعت کا مالک۔ اور اپنی قسمت پر شاکر و قانع تھا کیونکہ خدا نے اسے ایک نجس کتّا ہی پیدا کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ریشم کی اس گھر میں بے حد قدر و قیمت ہے۔ اسے اس حقیقت کا بھی علم تھا کہ اس کمینی دنیا میں محض ظاہری رنگ و روپ کی قدر کی جاتی ہے ۔ ایک رواقی فلسفی کی مانند آنکھیں بند کیے وہ غالباً دن بھر یہی سب سوچتا رہتا تھا اور اجنبی قدموں کی چاپ سنتے ہی آنکھیں کھول کر فوراً بھوکنا شروع کردیتا تھا۔ وہ اٹلی اور حبشہ کی جنگ کے زمانے میں میجر شیلٹن کی اعلا نسل کتّیا میگی کے یہاں پیدا ہوا تھا‘ میجر شیلٹن چونکہ بین الاقوامی سیاست سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اس لیے انہوں نے اس کا نام نیگس رکھا تھا۔ جس روز باجی نے اپنی چند سہیلیوں کو چائے پر بلایا تو بجلی کا ایک تار روشنی کے انتظام کے لیے باغ میں پہنچا دیا گیا تھا۔ اس روز موسم بہت خوش گوار تھا اور باجی اور ان کی سہیلیاں غروبِ آفتاب کے بعد تک اوور کوٹ پہنے باہر ٹہلتی رہی تھیں۔ پارٹی کے بعد باجی اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے ٹہلتی ہوئی سڑک پر چلی گئیں اور نیگس برآمدے میں رکھے ہوئے دعوت کے سامان کی حفاظت کے لیے مستعدی سے سیڑھیوں پربیٹھا رہا۔ جب باجی واپس آئیں تو انہوں نے جھک کر دور سے نیگس کو پچکارا۔ نیگس اس خلافِ توقع اور غیر معمولی اظہار التفات سے بے انتہا خوش ہوا۔ اور زور زور سے اُچھلنے کودنے لگا اور باجی کو مزید خوش کرنے کے لیے اس نے وہ سارے کھیل تماشے دکھانے شروع کیے جو اسے برکت مسیح جمعدار نے سکھلائے تھے اس طرح کھیلتے کھیلتے اس نے پام کے گملوں کے عقب میں پڑا ہوا بجلی کا تار منہ میں اٹھا لیا۔ تار میں کرنٹ موجود تھا۔ لہٰذا نیگسؔ پٹ سے گر گیا اور پندرہ منٹ بعد اس کے منہ سے دھواں نکلا کیوں کہ بجلی نے اسے اندر سے جلا دیا تھا۔ ایک روز ڈاکٹر زبیدہ صدیقی کا خط باجی کے نام کلکتے سے آیا۔ انہوں نے لکھا تھا: ’’ جس روز میں یہاں پہنچی اسی ہفتہ میں محمود صاحب نے میری بھتیجی سائرہ سے شادی کر لی۔ بڑی دھوم کی شادی ہوئی ہے۔ تم نے السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں دولہا دلہن کی تصویر بھی دیکھی ہوگی۔ پی۔ ایس:۔ میں نے اب اللہ میاں کے خلاف اسٹرائیک کردیا ہے اور پرسوں میں نے بھی ڈاکٹر اپّل سے سول میرج کر لی۔ ڈاکٹر اپّل بردوان کالج میں پڑھاتے ہیں۔ پی۔ پی۔ ایس : ڈاکٹر اپّل ہندو ہیں۔ یہ اطلاع کہ میں نے ایک کافر سے شادی کر لی مسز فاروقی، مسز قریشی اورمسز انصاری کو بھی دے دینا۔ دعا گو زبیدہ اپّل‘‘ دسمبر کے پہلے ہفتے میں جل دھرا کی حالت دفعتاً زیادہ بگڑ گئی۔ اُسے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا جہاں دوسرے دن اس نے پران تج دیئے۔ فقیرا دھاڑیں مارمار کر روتا پھرا ’’ صبر کر بچّے ___ صبر کر___ ‘‘ غفور بیگم نے اسے دلاسا دیا۔ ’’ انّا جی ۔ صبر کیسے کروں۔ میرے لیے ماں تھی تو وہ بھاوج تھی تووہ بیوی تھی تو وہ ‘‘ اور وہ روتا دھوتا پھر باہر چلا گیا۔ مگر تیسرے دن پھول چننے کے بعدجب وہ شمشان گھاٹ سے واپس لوٹا توبہت خوش تھا۔ اس نے ہاتھ میں مٹّی کا ایک کونڈا اُٹھا رکھا تھا جس میں جل دھرا کی راکھ تھی اور اس نے کہا کہ رات میں اُسے اپنے سرہانے رکھ کر سوؤں گا اور جل دھرا نے جس جون میں جنم لیا ہوگا اس کے پیروں کے نشان راکھ پر بن جائیں گے۔‘‘ جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں‘ باجی ایم۔ اے کے لیے فلسفے کا مطالعہ کر رہی تھیں اور بہت زیادہ قابل تھیں۔ فقیرا کی بات انہوں نے بڑی دل چسپی سے سنی اور رات کو کھانے کی میز پر بہت دیر تک مسئلہ تناسخ اور عوام کے توہّمات کے متعلق والد سے تبادلۂ خیالات کرتی رہیں۔ رات کو سونے سے پہلے فقیرا نے اپنی کوٹھری کی کُنڈی اندر سے چڑھائی اور راکھ کا کونڈا چار پائی کے نیچے رکھ کر سو گیا۔ صبح سویرے وہ بے حد خوش خوش کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔ فرطِ انبساط سے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ ’’بیگم صاحب ___ بڑی بٹیا___ بی بی ___ ‘‘ اس نے اطلاع دی___ ’’ میری جل دھرا گوریّا بن گئی ___ ‘‘ ’’ گوریّا بن گئی ___ ؟ ‘‘ باجی نے دہرایا‘ اور جلدی سے شال لپیٹ کر شاگرد پیشے کی طرف دوڑیں___ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے سرپٹ بھاگی۔ فقیرا کوٹھری میں سے کونڈا باہر لایا ’’ بڑی بٹیا ___ دیکھ لیجئے ___ یہ دیکھیے ___ یہ دیکھیے___ ‘‘ میں نے اور باجی نے آنکھیں پھاڑ کر راکھ کو دیکھا جس پر چڑیا کے پنجوں کے نشان بہت واضح بنے ہوئے تھے۔ ’’ گوریّا چڑیا ہے بڑی بٹیا ___ بی بی ___‘‘ اس نے کہا اور کونڈا بڑی احتیاط سے اندر لے گیا___ اس کے بعد سے فقیرا روز صبح کو گوریّا چڑیوں کو دانا ڈالتا۔ ان کے لیے پانی کی کٹوریاں بھر بھر کر رکھتا اور اگر کوئی گوریّا روشن دان یا دریچے میں سے کسی کمرے میں داخل ہوجاتی تو وہ سارے کام چھوڑ کر چٹکی بجا بجا کر کہتا ___ ’’ چہ چہ چہ ___ آہ ___ آہ___ آہ___ لے___ لے___ لے___‘‘اور باجرے کے دانے ہتھیلی پر ڈال کر ساکت کھڑا رہتا۔ اس مقصد کے لیے وہ باجرے کے دانے ہمیشہ جیب میں رکھتا تھا اور اب اُسے مستقل یہ تشویش رہتی تھی کہ ریشم کسی گوریّا کو نہ پکڑ لے۔ اس سال چلّے کا جاڑاپڑا تھا۔ ڈائنا روز ابھی ہسپتال میں داخل تھی۔ مسٹر بیکٹ اب میونسپلٹی کے نل پر بھی نظر نہ آتے۔ اب وہ دن بھر پریڈ گراؤنڈ کی ایک بنچ پر دھوپ میں‘ سر جھکائے بیٹھے رہتے۔ اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتے۔ ان کی ٹوپی ان کے پاس بنچ پر کاسۂ گدائی کی طرح رکھی رہتی۔ اور درختوں کے زرد پتّے گر گر کر اس میں جمع ہوتے رہتے۔ کرسمس نزدیک آگئی۔ کیرل گانے والوں کی ٹولیاں رات کے وقت ڈالن والا کی سڑک پر گھوم گھوم کر اکارڈین اور گٹار پر ولادتِ مسیحؑ کے گیت گاتی پھرتیں۔ صبح منہ اندھیرے کوئلہ بیچنے والے پہاڑیوں کی آوازیں آتیں جو چیتھڑوں اور گڈریوں میں ملبوس کوئلے کی بھاری کنڈیاں نواڑکی پٹّی کے ذریعے ماتھے سے باندھے ’’ کوئلہ چاہیے کوئلہ ___ ‘‘چلّاتے پھرے۔ سورج اوپر آتا تو سامنے ہمالیہ کا برف پوش سلسلہ کرنوں میں جگمگا اٹھتا۔ رات کو جتنا پانی فقیرا چڑیوں کے لیے باہر رکھتا تھا وہ صبح کو جما ہوا ملتا۔ رات گئے کسی پہاڑی راہ گیر کی بانسری کی آواز کہرے میں تیرتی ہوئی سنائی دے جاتی۔ کرسمس سے ایک دن پہلے سائمن نے بتایا کہ وہ صبح سویرے اُٹھ کر اسٹوو پر کرسمس پڈنگ تیار کرتے ہیں‘ گرجا جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اپنی کوٹھری میں بیٹھ کر دن بھر انجیلِ مقدس پڑھتے ہیں۔ اور کرسمس کے دوسرے روز وہ پڈنگ لے کر آئیں گے۔ بڑے دن کے تحفے کے طور پر وہ باجی کے لیے گلابی نقلی موتیوں کا منّا سا ہار‘ میرے لیے بالوں کے دو سرخ اور سبز ربن اور ریشم کے لیے ربر کی چھوٹی سی رنگین گیند لائے تھے۔ انہیں بڑے دن کے تحفے کے طور پر دس روپے دیئے گئے جوان کے لیے اتنی بڑی اور غیر متوقع رقم تھی کہ وہ چند لحظوں تک دس کے نوٹ کو آنکھیں پھاڑے دیکھتے رہے اور پھر ذرا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اسے احتیاط سے اندر واسکٹ کی جیب میں رکھ لیا۔ کرسمس کو تین دن گزر گئے مگر سائمن نہ آئے ۔ چوتھے دن ان کی خیر خبر لانے کے لیے فقیرا کو پادری اسکاٹ کے گھر بھیجا گیا۔ اس نے واپس آکر سر جھکا لیا اور آہستہ سے کہا___ ’’سائمن صاحب کی مٹّی ہوگئی۔ پادری صاحب کا مالی بتا رہا تھا کہ بڑے دن کے روزاس نے کوٹھری کا دروازہ کھولا تو سائمن صاحب چار پائی پر مرے ہوئے پڑے تھے۔ انہیں سردی لگ گئی۔ ’’ ان کے پاس ایک ہی کمّل تھا بیگم صاحب___ رات کو وہی کوٹ پتلون پہنے پہنے سوتے تھے۔‘‘ ’’بڑا جاڑا پڑ رہا ہے بڑی بٹیا۔ ہمارے ہاں گڑھوال میں تو لوگ باگ اکثر سردی سے اکڑ اکڑ کر مرتے رہتے ہیں‘ اب اتنا گرم کپڑا کہاں سے لاؤ ۔ سردی تو ہر سال ہی پڑتی ہے۔‘‘ تیسرے پہر کو جب سائمن کے آنے کا وقت ہوا تو ریشم جو سردی کی وجہ سے پچھلے ایک ہفتے سے اپنی ملائم پشمینے کی شال میں لپٹی ٹوکری کے نرم و گرم گدیلوں میں سمٹی سمٹائی بیٹھی رہتی تھی۔ ٹوکری سے اُتر کر لنگڑاتی پھاٹک کی طرف چلی گئی اور پُلیا پربیٹھ کر انتظار میں مصروف ہوگئی۔ کیونکہ سائمن روزانہ راستے میں میجر شیلٹن کے باورچی خانے سے مرغوں اور پرندوں کی مزے دار ہڈیاں اپنے میلے سے رومال میں احتیاط سے لپیٹ کر اُس کے لیے لایا کرتے تھے۔ سائمن نہ آئے۔دھوپ مدّھم پڑ گئی۔ تو اُس نے اُکتا کر ‘ اندر واپس آنے سے پہلے ایک گوریّا چڑیا پرتاک لگائی۔ گوریّا پھر سے اُڑ کر سلووا وک کی شاخ پر جا بیٹھی۔ ریشم نے اس کے تعاقب میں درخت پر چڑھنا چاہا مگر اپنی شکستہ ٹانگ کی وجہ سے جڑ پر سے پھسل کر نیچے آرہی ۔ گوریاّ پھدک کر اس سے اونچی شاخ پر چلی گئی۔ ریشم نے منہ اٹھا کربڑی بے کسی سے کمزور سی میاؤں کی۔ گوریّا نے پر پھیلائے اور کھلے، نیلے آسمانوں کی سمت اُڑ گئی۔
—————-

The post Dalan Wala A Short Story by Qurratul Ain Haider appeared first on UrduChannel.

Patjhad ki Awaz A Short Story by Qurratul Ain Haider

$
0
0

صبح میں گلی کے دروازے میں کھڑی سبزی والے سے گوبھی کی قیمت پر جھگڑ رہی تھی۔ اوپر باورچی خانے میں دال چاول ابالنے کے لیے چڑھا دیئے تھے۔ ملازم سودا لینے کے لیے بازار جا چکا تھا۔ غسل خانے میں وقار صاحب چینی کی چمچی کے اوپر لگے ہوئے مدھم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہوئے گنگنا رہے تھے اور شیو کرتے جاتے تھے۔ میں سبزی والے سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے میں مصروف تھی کہ رات کے کھانے کے لیے کیا کیا تیار کیا جائے۔ اتنے میں سامنے ایک کار آن کر رکی۔ ایک لڑکی نے کھڑکی سے جھانکا اور پھر دروازہ کھول کر باہر اترآئی۔ میں پیسے گن رہی تھی۔ اس لیے میں نے اُسے نہ دیکھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھی۔ اب میں نے سر اٹھاکر اس پر نظر ڈالی۔ ’’ارے___ تم___!‘‘ اس نے ہکا بکا ہوکر کہا اور وہیں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے وہ مدتوں سے مجھے مردہ تصور کرچکی ہے‘ اور اب میرا بھوت اس کے سامنے کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک لخطے کے لیے جو دہشت میں نے دیکھی اس کی یاد نے مجھے باولا کردیا ہے۔ میں تو سوچ سوچ کے دیوانی ہوجائوں گی۔ یہ لڑکی (اس کا نام ذہن میں محفوظ نہیں‘ اور اس وقت میں نے جھینپ کے مارے اس سے پوچھا بھی نہیں‘ ورنہ وہ کتنا برا مانتی) میرے ساتھ دلی کے کوئین میری میں پڑھتی تھی۔ یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت کوئی سترہ سال کی رہی ہوں گی۔ مگر میری صحت اتنی اچھی تھی کہ اپنی عمر سے کہیں بڑی معلوم ہوتی تھی‘ اور میری خوب صورتی کی دھوم مچنی شروع ہوچکی تھی۔ دلّی میں قاعدہ تھا کہ لڑکے والیاں اسکول اسکول گھوم کے لڑکیاں پسند کرتی پھرتی تھیں‘ اور جو لڑکی پسند آتی تھی اس کے گھر ’’رقعہ‘‘ بھجوادیا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی ماں‘ خالہ وغیرہ نے مجھے پسند کرلیا ہے (اسکول ڈے کے جلسے کے روز دیکھ کر) اور اب وہ مجھے بہو بنانے پر تلی بیٹھی ہیں۔ یہ لوگ نور جہاں روڈ پر رہتے تھے اور لڑکا حال ہی میں ریزرو بنک آف انڈیا میں دو ڈیڑھ سو روپے ماہوار کا نوکر ہوا تھا۔ چنانچہ ’’رقعہ‘‘ میرے گھر بھجوایا گیا۔ مگر میری اماں جان میرے لیے بڑے اونچے خواب دیکھ رہی تھیں۔ میرے والدین دلّی سے باہر میرٹھ میں رہتے تھے اور ابھی میرے بیاہ کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لہٰذا وہ پیغام فی الفور نا منظور کردیا گیا۔ اس کے بعد اس لڑکی نے کچھ عرصے میرے ساتھ کالج میں بھی پڑھا۔ پھر اس کی شادی ہوگئی اور وہ کالج چھوڑ کر چلی گئی۔ آج اتنے عرصے بعد لاہور کی مال روڈ کے پچھواڑے اس گلی میں میری اس سے مڈبھیڑہوئی۔ میں نے اس سے کہا___ اوپر آئو___ چائے وائے پیو۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ لیکن اس نے کہا میں جلدی میں کسی سسرالی رشتے دار کا مکان تلاش کرتی ہوئی اس گلی میں آنکلی تھی۔ انشاء اللہ پھر کبھی ضرور آئوں گی۔ اس کے بعد وہیں کھڑے کھڑے اس نے جلدی جلدی نام بنام ساری پرانی دوستوں کے قصے سنائے۔ کون کہاں ہے اور کیا کررہی ہے۔ سلیمہؔ بریگیڈیر فلاں کی بیوی ہے۔ چار بچے ہیں۔ فرخندہؔ کامیاں فارن سروس میں ہے۔ اس کی بڑی لڑکی لندن میں پڑھ رہی ہے۔ ریحانہؔ فلاں کالج میں پرنسپل ہے۔ سعدیہؔ امریکہ سے ڈھیروں ڈگریاں لے آئی ہے اور کراچی میں کسی اونچی ملازمت پر براجمان ہے۔ کالج کی ہندو ساتھیوں کے حالات سے بھی وہ باخبر تھی۔ پربھاؔ کا میاں انڈین نیوی میں کموڈور ہے۔ وہ بمبئی میں رہتی ہے۔ سرلاؔ آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر ہے اور جنوبی ہند میں کہیں تعینات ہے۔ لوتیکاؔ بڑی مشہور آرٹسٹ بن چکی ہے اور نئی دلی میں اس کا اسٹوڈیو ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ سب باتیں کررہی تھی مگر اس کی آنکھوں کی اس دہشت کو میں نہ بھول سکی۔ اس نے کہا___ ’’میں سعدیہؔ، ریحانہؔ وغیرہ جب بھی کراچی میں اکٹھے ہوتے ہیں تمہیں برابر یاد کرتے ہیں۔‘‘ ’’واقعی___؟‘‘ میں نے کھوکھلی ہنسی ہنس کر پوچھا۔ معلوم تھا مجھے کن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہوگا۔ پچھلی پائیاں‘ ارے کیا یہ لوگ میری سہیلیاں تھیں؟ عورتیں دراصل ایک دوسرے کے حق میں چڑیلیں ہوتی ہیں۔ کٹنیاں‘ حرافائیں‘ اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں دریافت کیا کہ میں یہاں نیم تاریک سنسان گلی میں اس کھنڈر ایسے مکان کے شکستہ زینے پر کیا کررہی ہوں۔ اسے معلوم تھا۔ عورتوں کی انٹلی جنس سروس اتنی زبردست ہوتی ہے کہ انٹر پول بھی اس کے آگے پانی بھرے‘ اور پھر میرا قصہ توالم نشرح ہے۔ میری حیثیت کوئی قابل ذکر نہیں گمنام ہستی ہوں۔ اس لیے کسی کو میری پروا نہیں۔ خود مجھے بھی اپنی پروا نہیں۔ میں تنویر فاطمہ ہوں۔ میرے ابا میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ معمولی حیثیت کے زمین دار تھے۔ ہمارے یہاں بڑا سخت پردہ کیا جاتا تھا۔ خود میرا میرے چچا زاد‘ پھوپھی زاد بھائیوں سے پردہ تھا۔ میں بے انتہا لاڈوں کی پلی چہیتی لڑکی تھی۔ جب میں نے اسکول میں بہت سے وظیفے حاصل کرلیے تو میٹرک کرنے کے لیے خاص طور پر میرا داخلہ کوئین میری اسکول میں کرایا گیا۔ انٹر کے لیے میں علی گڑھ بھیج دی گئی۔ علی گڑھ گرلز کالج کا زمانہ میری زندگی کا بہترین دور تھا کیسا خواب آگیں دور تھا۔ میں جذبات پرست نہیں لیکن اب بھی جب کالج کا صحن‘ روشیں‘ گھاس کے اونچے پودے‘ درختوں پر جھکی بارش‘ نمائش کے میدان میں گھومتے ہوئے کالے برقعوں کے پرے‘ ہوسٹل کے پتلے پتلے برآمدوں چھوٹے چھوٹے کمروں کی وہ شدید گھریلو فضائیں یاد آتی ہیں تو جی ڈوب سا جاتا ہے۔ ایم۔ ایس۔ سی کے لیے میں پھر دلی آگئی۔ یہاں کالج میں میرے ساتھ یہی سب لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ریحانہؔ‘ سعدیہؔ‘ پر بھاؔ‘ فلانی ڈھماکی‘ مجھے لڑکیاں کبھی پسند نہ آئیں۔ مجھے دنیا میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔ بیش تر لوگ محض تضیع اوقات ہیں۔ میں بہت مغرور تھی۔ حسن ایسی چیز ہے کہ انسان کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر میں تو بقول شخصے لاکھوں میں ایک تھی۔ شیشے کا ایسا جھلکتا ہوا رنگ سرخی مائل سنہرے بال۔ بے حد شان دار ڈیل ڈول بنارسی ساری پہن لوں تو بالکل کہیں کی مہارانی معلوم ہوتی تھی۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا‘ یا شاید جنگ اسی سال ختم ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال دلی پر بہار آئی ہوئی تھی___ کروڑپتی کاروباریوں اور حکومت ہند کے اعلیٰ افسروں کی لڑکیاں___ ہندو‘ سکھ‘ مسلمان___ لمبی لمبی موٹروں میں اڑی اڑی پھرتیں نت نئی پارٹیاں‘ جلسے‘ ہنگامے‘ آج اندر پرستھ کالج میں ڈراما ہے‘ کل میرا نڈا ہائوس میں‘ پرسوں لیڈی ارون کالج میں کونسرٹ ہے۔ لیڈی ہارڈنگ اور سینٹ اسٹیفن کالج___ چیمسفرڈ کلب‘ روشن آرا‘ امپریل جم خانہ‘ غرض کہ ہر طرف الف لیلہ کے باب بکھرے پڑے تھے۔ ہر جگہ نوجوان فوجی افسروں اور سول سروس کے بن بیاہے عہدے داروں کے پرے ڈولتے نظر آتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔ پربھاؔ اور سرلاؔ کے ہم راہ ایک روز میں دلجیت کورکے یہاں جو ایک کروڑ پتی کنٹریکٹر کی لڑکی تھی کنگ ایڈورڈ روڈ کی ایک شان دار کوٹھی میں گارڈن پارٹی کے لیے مدعو تھی۔ یہاں میری ملاقات میجر خوش وقت سنگھ سے ہوئی۔ یہ جھانسی کی طرف کا چوہان راجپوت تھا۔ لمبا تڑنگا کالا بھجنگ‘ لانبی لانبی اوپر کو مڑی ہوئی نوکیلی مونچھیں‘ بے حد چمکیلے اور خوب صورت دانت‘ ہنستا تو بہت اچھا لگتا۔ غالبؔ کا پرستار تھا‘ بات بات پر شعر پڑھتا‘ قہقہے لگاتا اور جھک جھک کر بے حد اخلاق سے سب سے باتیں کرتا۔ اس نے ہم کو دو سرے روز سنیما چلنے کی دعوت دی۔ سرلاؔ‘ پربھاؔ‘ وغیرہ ایک بد دماغ لڑکیاں تھیں اور خاصی قدامت پسند‘ وہ لڑکوں کے ساتھ باہر گھومنے بالکل نہیں جاتی تھیں۔ خوش وقت سنگھ‘ دلجیت کے بھائی کا دوست تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دوں کہ اتنے میں سرلاؔ نے چپکے سے کہا___ ’’خوش وقت سنگھ کے ساتھ ہرگز سنیما مت جانا___ سخت لوفڑ لڑکا ہے‘‘___ میں چپ ہوگئی۔ اس زمانے میں نئی دلی کی دو ایک آوارہ لڑکیوں کے قصے بہت مشہور ہورہے تھے اور میں سوچ سوچ کر ڈرا کرتی تھی۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کس طرح لوگوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہیں۔ ہوسٹل میں ہم اکثر اس قسم کی لڑکیوں کے لیے قیاس آرائیاں کیا کرتے یہ بڑی عجیب اور پر اسرار ہستیاں معلوم ہوتیں۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ بھی ہماری طرح ہی کی لڑکیاں تھیں۔ ساڑیوں اور شلواروں میں ملبوس۔ طرح دار‘ خوب صورت پڑھی لکھی___! ’’لوگ بدنام کردیتے ہیں جی___‘‘ سعدیہؔ دماغ پر بہت زور ڈال کر کہتی___ ’’اب ایسا بھی کیا ہے۔‘‘ ’’دراصل ہماری سوسائٹی اس قابل ہی نہیں ہوئی کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ہضم کرسکے___‘‘ سرلا کہتی۔ ’’ہوتا یہ ہے کہ لڑکیاں احساس توازن کھو بیٹھتی ہیں۔‘‘ ریحانہؔ رائے دیتی۔ بہرحال کسی طرح یقین نہ آتا کہ یہ ہماری جیسی‘ ہمارے ساتھ کی چند لڑکیاں ایسی ایسی خوف ناک حرکتیں کس طرح کرتی ہیں۔ دوسری شام میں لیبارٹری کی طرف جارہی تھی کہ نکلسن میموریل کے قریب ایک قرمزی رنگ کی لمبی سی کار آہستہ سے رک گئی۔ اس میں سے خوش وقت سنگھ نے جھانکا اور اندھیرے میں اس کے خوب صورت دانت جھلملائے۔ ’’اجی حضرت! یوں کہیے کہ آپ اپنا اپوائیٹمنٹ بھول گئیں!‘‘ ’’جی___!‘‘ میں نے ہڑ بڑا کر کہا۔ ’’حضور والا___ چلیے میرے ساتھ فوراً۔ یہ شام کا وقت لیبارٹری میں گھس کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اتنا پڑھ کر کیا کیجئے گا___؟‘‘ میں نے بالکل غیر ارادی طور پر چاروں طرف دیکھا اور کار میں دبک کر بیٹھ گئی۔ ہم نے کناٹ پلیس جاکر ایک انگریزی فلم دیکھی۔ اس کے اگلے روز بھی۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک میں نے خوب خوب سیریں اس کے ساتھ کیں۔ وہ میڈنز میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس ہفتے کے آخر تک میں میجر خوش وقت سنگھ کی مسٹریس بن چکی تھی۔ میں لٹریری نہیں ہوں‘ میں نے چینی‘ جاپانی‘ روسی‘ انگریزی یا اردو شاعری کا مطالعہ نہیں کیا۔ ادب پڑھنا میرے نزدیک وقت ضائع کرنا ہے___ پندرہ برس کی عمر سے سائنس میرا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مابعد الطبیعاتی تصوارت کیا ہوتے ہیں۔ Mystic کشش کے کیا معنی ہیں۔ شاعری اور فلسفے کے لیے نہ میرے پاس فرصت جب تھی نہ اب ہے۔ میں بڑے بڑے مبہم‘ غیر واضح اور پر اسرار الفاظ بھی استعمال نہیں کرسکتی۔ بہرحال پندرہ روز کے اندر اندر یہ واقعہ بھی کم وبیش کالج میں سب کو معلوم ہوچکا تھا۔ لیکن مجھ میں اپنے اندر ہمیشہ سے بڑی عجیب سی خود اعتمادی تھی میں نے اب پروا نہیں کی۔ پہلے بھی میں لوگوں سے بول چال بہت کم رکھتی تھی۔ سرلاؔ وغیرہ کا گروہ اب مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا گویا میں مریخ سے اتر کر آئی ہوں یا میرے سر پر سینگ ہیں۔ ڈائننگ ہال میں میرے باہر جانے کے بعد گھنٹوں میرے قصے دہرائے جاتے۔ اپنی انٹلی جنس سروس کے ذریعے میرے اور خوش وقت سنگھ کے بارے میں ان کو پل پل کی خبر رہتی۔ ہم لوگ شام کو کہاں گئے___ رات نئی دلی کے کون سے بال روم میں ناچے (خوش وقت معرکے کا ڈانسر تھا۔ اس نے مجھے ناچنا بھی سکھا دیا تھا) خوش وقت نے مجھے کیا کیا تحائف کون کون سی دکانوں سے خرید کر دیئے۔ خوش وقت سنگھ مجھے مارتا بہت تھا اور مجھ سے اتنی محبت کرتا تھا جو آج تک دنیا میں کسی مرد نے کسی عورت سے نہ کی ہوگی۔ کئی مہینے گزر گئے۔ میرے ایم۔ ایس۔ سی پریویس کے امتحان سر پر آگئے اور میں پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ امتحانات کے بعد اس نے کہا___ ’’جان من___ دل ربا! چلو کسی خاموش سے پہاڑ پر چلیں___ سولن‘ ڈلہوزی‘ لینسڈائون___ میں چند روز کے لیے میرٹھ گئی اور ابا سے یہ کہہ کر (اماں جان کا جب میں تھرڈ ایر میں تھی تو انتقال ہوگیا تھا) دلی واپس آگئی کہ فائنل ایر کے لیے بے حد پڑھائی کرنی ہے‘ شمالی ہند کے پہاڑی مقامات پر بہت سے شناسائوں کے ملنے کا امکان تھا اس لیے ہم دور جنوب میں اوٹی چلے گئے وہاں مہینہ بھر رہے۔ خوش وقت کی چھٹی ختم ہوگئی تو دلی واپس آکر تیمار پور کے ایک بنگلے میں ٹک گئے۔ کالج کھلنے سے ایک ہفتہ قبل خوش وقت کی اور میری بڑی زبردست لڑائی ہوئی۔ اس نے مجھے خوب مارا۔ اتنا مارا کہ میرا سارا چہرہ لہو لہان ہوگیا‘ اور میری بانہوں میں اور پنڈلیوں پر نیل پڑگئے۔ لڑائی کی وجہ اس کی وہ مردار عیسائی منگیتر تھی جو جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی اور سارے میں میرے خلاف زہر اگلتی پھر رہی تھی۔ اگر اس کا بس چلتا تو مجھے کچا چبا جاتی۔ یہ چار سو بیس لڑکی جنگ کے زمانے میں فوج میں تھی اور خوش وقت کو برما کے محاذ پر ملی تھی۔ خوش وقت نے جانے کس طرح اس سے شادی کا وعدہ کرلیا تھا۔ لیکن مجھ سے ملنے کے بعد اب وہ اس کی انگوٹھی واپس کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس رات تیمارپور کے اس سنسان بنگلے میں اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ میں اس سے بیاہ کرلوں‘ ورنہ وہ مرجائے گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ قیامت تک نہیں۔ میں اعلیٰ خاندان سید زادی‘ بھلا اس کالے تمباکو کے پنڈے ہندو جاٹ سے بیاہ کرکے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاتی۔ میں تو اس حسین وجمیل کسی بہت اونچے مسلمان گھرانے کے چشم وچراغ کے خواب دیکھ رہی تھی جو ایک روز دیر‘ یا سویر‘ برات لے کر مجھے بیاہنے آئے گا۔ ہمارا آرسی مصحف ہوگا۔ میں سہرے جلوے سے رخصت ہوکر اس کے گھر جائوں گی۔ بجلی بسنت نندیں دروازے پر دہلیز روک کر اپنے بھائی سے نیگ کے لیے جھگڑیں گی۔ میراثنیں ڈھولک لیے کھڑی ہوں گی۔ کیا کیا کچھ ہوگا۔ میں نے کیا ہندو مسلم شادیوں کا حشر دیکھا نہیں تھا۔ کیئوں نے ترقی پسند یا جذبہ عشق کے جوش میں آکر ہندوئوں سے بیاہ رچائے اور سال بھر کے اندر جوتیوں میں دال بٹی۔ بچوں کا جو حشر خراب ہوا وہ الگ___ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ میرے انکار پر خوش وقت نے جوتے لات سے مار مار کر میرا بھرکس نکال دیا اور تیسرے دن اس ڈائن کالی بلا کیتھرین دھرم داس کے ساتھ آگرے چلا گیا جہاں اس نے اس بد ذات لڑکی سے سول میرج کرلی۔ جب میں نئی ٹرم کے آغاز پر ہوسٹل پہنچی تو اس حلیے سے کہ میرے سر اور چہرے پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ابا کو میں نے لکھ بھیجا کہ لیبارٹری میں ایک تجربہ کررہی تھی‘ ایک خطرناک مادہ بھک سے اڑا اور اس سے میرا منہ تھوڑا سا جل گیا۔ اب بالکل ٹھیک ہوں۔ فکر نہ کیجئے۔ لڑکیوں کو تو سارا قصہ پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اخلاقاً میری خیریت بھی نہ پوچھی۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد مجھے ہوسٹل میں رہنے کی اجازت نہ دی جاتی مگر ہوسٹل کی وارڈن خوش وقت سنگھ کی بہت دوست تھی۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی طرح کا ثبوت بھی نہ تھا۔ کالج کی لڑکیوں کو لوگ یوں بھی خواہ مخواہ بدنام کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے‘ جیسے کل کی بات ہو۔ صبح کے دس گیارہ بجے ہوں گے۔ ریلوے اسٹیشن سے لڑکیوں کے تانگے آ آکر پھاٹک میں داخل ہورہے تھے۔ ہوسٹل کے لان پر برگد کے درخت کے نیچے لڑکیاں اپنا اپنا اسباب اتروا کر رکھوا رہی تھیں۔ بڑی سخت چل پوں مچا رکھی تھی۔ جس وقت میں اپنے تانگے سے اتری وہ میرا ڈھاٹے سے بندھا ہوا سفید چہرہ دیکھ کر ایسی حیرت زدہ ہوئیں جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں نے سامان چوکیدار کے سر پر رکھوایا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ دوپہر کو جب میں کھانے کی میز پر آن کر بیٹھی تو ان قطامائوں نے مجھ سے اس اخلاق سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں جن سے اچھی طرح یہ ظاہر ہوجائے کہ میرے حادثے کی اصل وجہ جانتی ہیں اور مجھے ندامت سے بچانے کے لیے اس کا تذکرہ ہی نہیں کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے جو اس چنڈال چوکڑی کی گرو اور ان سب کی استاد تھی‘ رات کو کھانے کی میز پر فیصلہ صادر کیا کہ میں نفسیات کی اصطلاح میں Nympho-Maniac ہوں (مجھے میری جاسوس کے ذریعے یہ اطلاع فوراً اوپر پہنچ گئی‘ جہاں میں اس وقت اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس ٹیبل لیمپ لگائے پڑھائی میں مصروف تھی) اور اس طرح کی باتیں تو اب عام تھیں کہ ایک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے۔ اسی لیے تو لڑکیوں کی بے پردگی آزادی خطرناک اور اعلیٰ تعلیم بدنام ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنی حد تک سوفی صدی ان آراء سے متفق تھی۔ میں خود سوچتی تھی کہ بعض اچھی خاصی بھلی چنگی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں آوارہ کیوں ہوجاتی ہیں۔ ایک تھیوری تھی کہ وہیں لڑکیاں آوارہ ہوتی ہیں جن کا ’’آئی۔ کیئو‘‘ بہت کم ہوتا ہے۔ ذہین انسان کبھی اپنی تباہی کی طرف جان بوجھ کر قدم نہ اٹھائے گا۔ مگر میں نے تو اچھی خاصی سمجھ دار تیز وطرار لڑکیوں کو لوفری کرتے دیکھا تھا۔ دوسری تھیوری تھی کہ سیرو تفریح‘ روپے پیسے‘ عیش وآسایش کی زندگی‘ قیمتی تحائف کا لالچ‘ رومان کی تلاش‘ ایڈونچر کی خواہش‘ یا محض اکتاہٹ‘ یا پردے کی قید وبند کے بعد آزادی کی فضا میں داخل ہوکر پرانی اقدار سے بغاوت۔ اس صورت حال کی چند وجوہ ہیں۔ یہ سب باتیں ضرور ہوں گی ورنہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ میں فرسٹ ٹرمنل امتحان سے فارغ ہوئی تھی کہ خوش وقت پھر آن پہنچا۔ اس نے مجھے لیبارٹیری فون کیا کہ میں نرولاؔ میں چھ بجے اس سے ملوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ کیتھرین کو اپنے ماں باپ کے یہاں چھوڑ کر سرکاری کام سے دلی آیا تھا اس مرتبہ ہم ہوائی جہاز سے ایک ہفتے کے لیے بمبئی چلے گئے۔ اس کے بعد اس سے ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنا ہوتا رہا۔ ایک سال نکل گیا اب کے سے جب وہ دلی آیا تو اس نے اپنے ایک جگری دوست کو مجھے لینے کے لیے موٹر لے کر بھیجا۔ کیونکہ وہ لکھنو سے لاہور جاتے ہوئے پالم پر چند گھنٹے کے لیے ٹھہرا تھا۔ یہ دوست دلی کے ایک بڑے مسلمان تاجر کا لڑکا تھا۔ لڑکا تو خیرنہیں کہنا چاہئے اس وقت بھی وہ چالیس کے پیٹے میں رہا ہوگا۔ بیوی بچوں والا۔ تاڑ کا سا قد بے حد غلط انگریزی بولتا تھا۔ کالا۔ بدقطع۔ بالکل چڑی مار کی شکل، ہوش صفت۔ خوش وقت اب کی مرتبہ دلی سے گیا تو پھر کبھی واپس نہ آیا کیونکہ اب میں فاروقؔ کی مسٹریس بن چکی تھی۔ فاروق کے ساتھ اب میں اس کی ’’منگیتر‘‘ کی حیثیت سے باقاعدہ دلی کی اونچی سوسائٹی میں شامل ہوگئی۔ مسلمانوں میں تو چار شادیاں جائز ہیں لہٰذا یہ کوئی بہت بری بات نہ تھی۔ یعنی مذہب کے نقطہ نگاہ سے کہ وہ اپنی ان پڑھ‘ ادھیڑ عمر کی پردے کی بوبو کی موجودگی میں ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا جو چار آدمیوں میں ڈھنگ سے اٹھ بیٹھ سکے اور پھر دولت مند طبقے میں سب کچھ جائز ہے۔ یہ تو ہماری مڈل کلاس کے قوانین ہیں کہ یہ نہ کرو‘ وہ نہ کرو___ طویل چھٹیوں کے زمانے میں فاروق نے بھی مجھے خوب سیریں کرائیں۔ کلکتہ‘ لکھنؤ‘ اجمیر‘ کون جگہ تھی جو میں نے اس کے ساتھ نہ دیکھی۔ اس نے مجھے ہیرے جواہرات کے گہنوں سے لاد دیا۔ ابا کو لکھ بھیجتی تھی کہ یونی ورسٹی کے طالب علموں کے ہم راہ ٹور پر جارہی ہوں یا فلاں جگہ ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنا تعلیمی ریکارڈ اونچا رکھنے کی دھن تھی۔ فائنل امتحان میں میں نے بہت ہی خراب پرچے کیے اور امتحان ختم ہوتے ہی گھر چلی گئی۔ اسی زمانے میں دلی میں گڑ بڑ شروع ہوئی اور فسادات کا بھونچال آگیا۔ فاروق نے مجھے میرٹھ خط لکھا کہ تم فوراً پاکستان چلی جائو۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔ میرا پہلے ہی سے یہ ارادہ تھا ابا بھی بے حد پریشان تھے اور یہی چاہتے تھے کہ ان حالات میں اب میں انڈیا میں نہ رہوں جہاں شریف مسلمان لڑکیوں کی عزتیں مستقل خطرے میں ہیں۔ پاکستان اپنا اسلامی ملک تھا۔ اس کی بات ہی کیا تھی۔ ابا جائیداد وغیرہ کی وجہ سے فی الحال ترک وطن نہ کرسکتے تھے۔ میرے بھائی دونوں بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور اماں جان کے انتقال کے بعد ابا نے ان کو میری خالہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیج دیا تھا۔ میرا رزلٹ نکل چکا تھا اور میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ جب بلووں کا زور ذرا کم ہوا تو میں ہوائی جہاز سے لاہور آگئی۔ فاروق میرے ساتھ آیا۔ اس نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ اپنے کاروبار کی ایک شاخ پاکستان میں قائم کرکے لاہور اس کا ہیڈ آفس رکھے گا۔ مجھے اس کا مالک بنائے گا اور وہیں مجھ سے شادی کرلے گا۔ وہ دلی سے ہجرت نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے باپ بڑے احراری خیالات کے آدمی تھے۔ پلان یہ تھا کہ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے دلی سے لاہور آتا رہے گا۔ لاہور میں افراتفری تھی حالانکہ ایک سے ایک اعلیٰ کوٹھی الاٹ ہوسکتی تھی‘ مگر فاروق یہاں کسی کو جانتا نہ تھا۔ بہرحال سنت نگر میں ایک چھوٹا سا مکان میرے نام الاٹ کراکے اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا اور میری دوسراتھ کے لیے اپنے ایک دور کے رشتے دار کنبے کو میرے پاس ٹھہرادیا جو مہاجر ہوکے لاہور آئے تھے اور مارے مارے پھر رہے تھے___ میں زندگی کی اس یک بیک تبدیلی سے اتنی ہکا بکا تھی کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا سے کیا ہوگیا۔ کہاں غیر منقسم ہندوستان کی وہ بھرپور‘ دل چسپ رنگا رنگ دنیا کہاں ۴۸ئ؁ کے لاہور کا وہ تنگ وتاریک مکان۔ غریب الوطنی___ اللہ اکبر___ میں نے کیسے کیسے دل ہلا دینے والے زمانے دیکھیں ہیں۔ میں اتنی خالی الذہن ہوچکی تھی کہ میں نے تلاشِ ملازمت کی بھی کوئی کوشش نہ کی۔ روپے کی طرف سے فکر نہ تھی کیونکہ فاروق میرے نام دس ہزار روپیہ جمع کرا گیا تھا (صرف دس ہزار وہ خود کروڑوں کا آدمی تھا مگر اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ اب بھی نہیں آتا) دن گزرتے گئے۔ میں صبح سے شام تک پلنگ پر پڑی فاروق کے رشتے کی خالہ یا نانی جو کچھ بھی وہ بڑی بی تھیں۔ ان سے ان کی ہجرت کے مصائب کی داستان اور ان کی سابقہ امارات کے قصے سنا کرتی اور پان پہ پان کھاتی‘ یا ان کی میٹرک میں پڑھنے والی بیٹی کو الجبرا‘ جیومیٹری سکھلایا کرتی۔ ان کا بیٹا فاروق کی برائے نام بزنس کی دیکھ بھال کررہا تھا۔ فاروق سال میں پانچ چھے چکر لگا لیتا۔ اب لاہور کی زندگی رفتہ رفتہ نارمل ہوتی جارہی تھی۔ اس کی آمد سے میرے دن کچھ رونق کے کٹتے۔ اس کی خالہ بڑی اہتمام سے دلی کے کھانے اس کے لیے تیار کرتیں۔ میں مال کے ہیر ڈریسر کے یہاں جاکر اپنے بال سیٹ کرواتی۔ شام کو ہم دونوں جم خانہ کلب چلے جاتے اور وہاں ایک کونے کی میز پر بیئر کا گلاس سامنے رکھے فاروق مجھے دلی کے واقعات سناتا۔ وہ بے تکان بولے چلا جاتا۔ یا پھر دفعتاً چپ ہوکر کمرے میں آنے والی اجنبی صورتوں کو دیکھتا رہتا۔ اس نے شادی کا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے بھی اس سے نہیں کہا۔ میں اب اکتا چکی تھی کسی چیز سے کوئی فرق نہ پڑتاجب وہ دلی واپس چلا جاتا تو میں ہر پندرہویں دن اپنی خیریت کا خط اور اس کے کاروبار کا حال لکھ بھیجتی اور لکھ دیتی کہ اب کی دفعہ آئے تو کناٹ پلیس یا چاندنی چوک کی فلاں دکان سے فلاں فلاں قسم کی ساڑیاں لیتا آئے کیونکہ پاکستان میں اچھی ساڑیاں ناپید ہیں۔ ایک روز میرٹھ سے چچا میاں کا خط آیا کہ ابا کا انتقال ہوگیا۔ جب احمدؐ ِ مرسل نہ رہے کون رہے گا میں جذبات سے واقف نہیں ہوں مگر باپ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کی موت کا مجھے سخت صدمہ ہوا۔ فاروق نے مجھے بڑے پیار کے دلاسے بھرے خط لکھے تو ذرا ڈھارس بندھی۔ اس نے لکھا___ نماز پڑھا کرو‘ بہت برا وقت ہے۔ دنیا پر کالی آندھی چل رہی ہے۔ سورج ڈیڑھ بلم پر آیا چاہتا ہے ۔ پل کا بھروسا نہیں۔ سارے کاروباریوں کی طرح وہ بھی بڑا سخت مذہبی اور توہم پرست آدمی تھا۔ پابندی سے اجمیر شریف جاتا___ نجومیوں‘ رمالوں‘ پنڈتوں سیانوں‘ پیروں‘ فقیروں‘ اچھے اور برے شگونوں‘ خوابوں کی تعبیر‘ غرض کہ ہر چیز کا قائل تھا۔ ایک مہینہ نماز پڑھی۔ مگر جب میں سجدے میں جاتی تو دل چاہتا خوب زور زور سے ہنسوں۔ ملک میں سائنس کی خواتین لیکچراروں کی بڑی زبردست مانگ تھی۔ جب مجھے ایک مقامی کالج والوں نے بے حد مجبور کیا تو میں نے پڑھانا شروع کردیا۔ حالانکہ ٹیچری کرنے سے مجھے سخت نفرت ہے ۔ کچھ عرصے بعد مجھے پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کے گرلز کالج میں بلا لیا گیا۔ کئی سال تک میں نے وہاں کام کیا ۔ مجھ سے میری طالب علم لڑکیاں اکثر پوچھتیں ___ ’’ہائے اللہ مس تنویر۔ آپ اتنی پیاری سی ہیں۔ آپ اپنے کروڑ پتی منگیتر سے شادی کیوں نہیںکرتیں؟ ‘‘ اس سوال کا خودمیرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یہ نیا ملک تھا ۔ نئے لوگ ، نیا معاشرہ ۔ یہاں کسی کو میرے ماضی کا علم نہ تھا۔ کوئی بھی بھلا مانس مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوسکتا تھا( لیکن بھلے مانس، خوش شکل ، سیدھے سادے شریف زادے مجھے پسند ہی نہیں آتے تھے ‘ میں کیا کرتی؟ ) دلّی کے قصے دلّی میں رہ گئے۔ اور پھر میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ ایک سے ایک حرّافہ لڑکیاں اب ایسی پارسا بنی ہوئی ہیں کہ دیکھا ہی کیجیے۔ خود ایڈتھ ہری رام اور رانی خان کی مثال میرے سامنے موجود ہے۔ اب فاروق بھی کبھی کبھی آتا۔ ہم لوگ اس طرح ملتے گویا بیسیوں برس کے پرانے شادی شدہ میاں بیوی ہیںجن کے پاس سارے نئے موضوع ختم ہوچکے ہیں۔ اب سکون اور آرام اور ٹھہراؤ کا وقت ہے فاروق کی بیٹی کی حال ہی میں دلّی میں شادی ہوئی ہے۔ اس کا لڑکا اوکسفوڈ جا چکا ہے۔ بیوی کو مستقل دمہ رہتا ہے فاروق نے اپنے کاروبار کی شاخیں باہر کے کئی ملکوں میں پھیلا دی ہیں۔ نینی تال میں نیا بنگلہ بنوا رہا ہے۔ فاروق اپنے خاندان کے قصے‘ کاروبار کے معاملات مجھے تفصیل سے سنا یا کرتا اور میں اس کے لیے پان بناتی رہتی۔ ایک مرتبہ میں چھٹیوں میں کالج سے لاہورآئی تو فاروق کے ایک پرانے دوست سید وقار حسین خان سے میری ملاقات ہوئی۔ یہ بھی اپنے پرانے وقت کے اکیلے تھے۔اور کچھ کم کم رُونہ تھے۔ دراز قد‘ موٹے تازے‘ سیاہ توا ایسا رنگ عمر میں پینتالیس کے لگ بھگ۔ اچھے خاصے دیوزاد معلوم ہوتے۔ ان کو میں نے پہلی مرتبہ نئی دلّی میں دیکھا تھا جہاں ان کا ڈانسنگ اسکول تھا۔ یہ رام پور کے ایک شریف گھرانے کے اکلوتے فرزند تھے۔ بچپن میں گھر سے بھاگ گئے۔ سرکس ‘ کارینول اور تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ ملکوںملکوں میں گھومے۔ سنگارپور‘ ہانگ کانگ‘ شنگھائی‘ لندن، جانے کہاں کہاں ۔ ان گنت قومیتوں اور نسلوں کی عورتوں سے وقتاً فوقتاً شادیاں رچائیں۔ ان کی موجودہ بیوی اڑیسہ کے ایک مارواڑی مہاجن کی لڑکی تھی جس کو یہ کلکتے سے اڑا لائے تھے۔ بارہ پندرہ سال قبل میں نے اسے دلّی میں دیکھا تھا۔ سانولی سلونی سی پستہ قد لڑکی تھی۔ میاں کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر ادھر اُدھر بھاگ جاتی۔ لیکن چند روز کے بعد پھر واپس موجود ۔ خان صاحب نے کناٹ سرکس کی ایک بلڈنگ کی تیسری منزل میں انگریزی ناچ سکھانے کا اسکول کھول رکھا تھا جس میں وہ اور ان کی بیوی اور دو اینگلو انڈین لڑکیاں گویا اسٹاف میں شامل تھیں۔ جنگ کے زمانے میں اس اسکول پرہن برسا۔ اتوار کے روز ان کے یہاں صبح کو ’’جیم سیشن‘‘ ہوا کرتے۔ ایک مرتبہ میں بھی خوش وقت کے ساتھ وہاں گئی تھی۔ سنا تھا کہ وقار صاحب کی بیوی ایسی مہاستی انسویاؔ کی اوتار ہیں کہ ان کے میاں حکم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکی سے بہنا پاگانٹھو اور پھر اسے مجھ سے ملانے کے لیے لے کر آؤ۔ اور وہ نیک بخت ایسا ہی کرتی۔ ایک بار وہ ہمارے ہوسٹل میں آئی اور چند لڑکیوں کے سر ہوئی کہ اس کے ساتھ بارہ کھمبا روڈ چل کر چائے پئیں۔ تقسیم کے بعد وقار صاحب بقول شخصے لُٹ لُٹا کر لاہور آن پہنچے تھے اور مال روڈ کے پچھواڑے ایک فلیٹ الاٹ کرو ا کر اس میں اپنا اسکول کھول لیا تھا۔ شروع شروع میں کاروبار مندا رہا۔ دلوں پر مردنی چھائی تھی۔ ناچنے گانے کا کسے ہوش تھا۔ اس فلیٹ میں تقسیم سے پہلے آریہ سماجی ہندوؤں کا میوزک اسکول تھا ۔ لکڑی کے فرش کا ہال‘ پہلو میں دو چھوٹے کمرے‘ غسل خانہ اور باورچی خانہ ‘ سامنے لکڑی کی بالکنی اور شکستہ ہلتا ہوا زینہ ’’ ہند ماتا سنگیت مہاودیالہ‘‘ کا بورڈ بالکنی کے جنگلے پر اب تک ٹیڑھا ٹنگا ہوا تھا۔ اُسے اُتار کر ’’ وقارز اسکول آف بال روم اینڈ ٹیپ ڈانسنگ ‘‘ کا بورڈ لگا دیا گیا۔ امریکی فلمی رسالوں سے تراش کر جین کیلی‘ فریڈ اسٹرؔ‘ فرینک سینا ٹرا‘ ڈورسؔ ڈے وغیرہ کی رنگین تصویریں ہال کی بوسیدہ دیواروں پر آویزاں کردی گئیں اور اسکول چالو ہوگیا۔ ریکارڈوں کا تھوڑا سا ذخیرہ خان صاحب دلّی سے ساتھ لیتے آئے تھے۔ گرامو فون اور سیکنڈ ہینڈ فرنیچر فاروق سے روپیا قرض لے کر انہوں نے یہاں خرید لیا۔ کالج کے منچلے لونڈوں اور نئی دولت مند سوسائٹی کی تازہ تازہ فیشن ایبل بیگمات کو خدا سلامت رکھے۔ دو تین سال میں ان کا کام خوب چمک گیا۔ فاروق کی دوستی کی وجہ سے میرا اور ان کا کچھ بھاوج اور جیٹھ کا سا رشتہ ہوگیا تھا۔ وہ اکثر میری خیر خبر لینے آجاتے‘ ان کی بی بی گھنٹوں میرے ساتھ پکانے‘ ریندھنے‘ سینے پرونے کی باتیں کیا کرتیں۔ بے چاری مجھ سے بالکل جٹھانی والا شفقت کا برتاؤ کرتیں۔ یہ میاں بیوی لا ولد تھے۔ بڑا اُداس ‘ بے رنگ ‘ بے تُکا سا غیر دل چسپ جوڑا تھا۔ ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں___! کالج میں نئی امریکہ پلٹ نک چڑھی پرنسپل سے میرا جھگڑا ہوگیا۔ اگر وہ سیر تو میں سوا سیر۔ میں خود ابو الحسن تانا شاہ سے کون کم تھی۔ میں نے استعفاء کالج کمیٹی کے سرپر مارا۔ اور پھر سنت نگر لاہور واپس آگئی۔ میں پڑھاتے پڑھاتے اُکتا چکی تھی۔ میں کوئی وظیفہ لے کر پی ایچ ڈی کے لیے باہر جاسکتی تھی۔ مگر اس ارادے کو بھی کل پر ٹالتی رہی۔ کل امریکنوں کے دفتر جاؤں گی جہاں وہ وظیفے بانٹتے ہیں۔ کل برٹش کونسل جاؤں گی ۔ کل ایجوکیشن منسٹری میں اسکالر شپ کی درخواست بھیجوں گی۔ مزید وقت گزر گیا۔ کیا کروں گی کہیں باہر جاکر ___ ؟ کون سے گڑھ جیت لوں گی___ ؟ کون سے کدّو میں تیر مار لوں گی___؟ مجھے جانے کس چیز کا انتظار تھا___؟ مجھے معلوم نہیں ! اس دوران میں ایک روز وقار بھائی میرے پاس حواس باختہ آئے اور کہنے لگے___ ’’تمہاری بھابی کے دماغ میں پھر سودا اٹھا۔ وہ ویزا بنوا کر انڈیا واپس چلی گئیں۔ اور اب کبھی نہ آئیں گی۔‘‘ ’’ یہ کیسے ___ ؟ ‘‘ میں نے ذرا بے پروائی سے پوچھا۔ اور ان کے لیے چائے کا پانی اسٹوو پر رکھ دیا۔ ’’ بات یہ ہوئی کہ میں نے انہیں طلاق دے دی۔ ان کی زبان بہت بڑھ گئی تھی۔ ہر وقت ٹرٹر ___ ٹرٹر ___ ‘‘ پھر انہوں نے سامنے کے کھرّے پلنگ پر بیٹھ کر خالص شوہروں والے انداز میں بیوی کے خلاف شکایات کا ایک دفتر کھول دیا اور خود کو بے قصور اور حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ میں بے پروائی سے یہ ساری کتھا سنا کی۔ زندگی کی ہربات اس قدر بے رنگ‘ غیر اہم‘ غیر ضروری اور بے معنیٰ تھی___ ! کچھ عرصے بعد وہ میرے یہاں آکر بڑ بڑائے: ’’ نوکروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کبھی اتنا بھی تم سے نہیں ہوتا کہ آکر ذرا بھائی کے گھر کی حالت ہی درست کرجاؤ۔ نوکروں کے کان امیٹھو ۔ میں اسکول بھی چلاؤں اور گھر بھی___ ‘‘ انہوں نے اس انداز سے شکایتاً کہا گویا ان کے گھر کا انتظام کرنا میرا فرض تھا۔ چند روز بعد میں اپنا سامان باندھ کر وقار صاحب کے کمروں میں منتقل ہوگئی اور ناچ سکھانے کے لیے ان کی اسسٹنٹ بھی بن گئی۔ اس کے مہینے بھر بعد پچھلے اتوار کو وقار صاحب نے ایک مولوی بلوا کر اپنے دو چُرکٹوں کی گواہی میں مجھ سے نکاح پڑھوا لیا۔ اب میں دن بھر گھر کے کام میں مصروف رہتی ہوں___ میرا حُسن و جمال ماضی کی داستانوں میں شامل ہوچکا ہے۔ مجھے شور و شغف پارٹیاں ہنگامے مطلق پسند نہیں۔ لیکن گھر میں ہر وقت ’’ چاچا‘‘ اور کلپسو‘‘ اور ’’راک اینڈ رول‘‘ کا شور مچتا رہتا ہے۔ بہر حال یہی میرا گھر ہے! میرے پاس اس وقت کئی کالجوں میں کیمسٹری پڑھانے کے اَوفر ہیں مگر بھلا خانہ داری کے دھندوں سے کہیں فرصت ملتی ہے۔ نوکروں کا یہ حال ہے کہ آج رکھو‘ کل غائب۔ میں نے زیادہ کی تمنّا کبھی نہیں کی۔ صرف اتنا ہی چاہا کہ ایک اوسط درجے کی کوٹھی ہو۔ سواری کے لیے موٹر۔ تاکہ آرام سے ہر جگہ آسکیں۔ ہم چشموں میں بے عزتی نہ ہو۔ چار ملنے والے آئین توبٹھانے کے لیے قرینے کا ٹھکانہ ہو‘ اور بس! اس وقت ہماری ڈیڑھ دو ہزار ماہوار آمدنی ہے جو دو میاں بیوی کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی قسمت پر قانع ہوجائے تو سارے دکھ آپ سے آپ مٹ جاتے ہیں۔ شادی کر لینے کے بعد لڑکی کے سر کے اوپر چھت سی پڑ جاتی ہے۔ آج کل کی لڑکیاں جانے کس رَو میں بہہ رہی ہیں۔ کس طرح یہ لوگ ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں۔ جتنا سوچوں‘ عجیب سا لگتا ہے اور حیرت ہوتی ہے۔ میں نے تو کبھی کسی سے فلرٹ تک نہ کیا۔ خوش وقت‘ فاروق اور اس سیاہ فام دیوزاد کے علاوہ جو میرا شوہر ہے‘ میں کسی چوتھے آدمی سے واقف نہیں۔ میں شدید بدمعاش تو نہیں تھی‘ نہ معلوم میں کیا تھی اور کیاہوں ___ ریحانہ، سعدیہ، پربھا اور یہ لڑکی جس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی، شاید وہ مجھ سے زیادہ اچھی طرح مجھ سے واقف ہوں۔ اب خوش وقت کو یاد کرنے کا فائدہ___ ؟ وقت گزر چکا ۔ جانے اب تک وہ بریگیڈیر میجر جنرل بن چکا ہو‘ آسام کی سرحد پر چینیوں کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھا ہو‘ یا ہندستان کی کسی ہری بھری چھاؤنی کے میس میں بیٹھا مونچھوں پر تاؤ دے رہا ہو‘ اور مسکراتا ہو‘ شاید وہ کب کا کشمیرکے محاذ پر مارا جاچکا ہو‘ کیا معلوم ! اندھیری راتوں میں میں آنکھیں کھولے چپ چاپ پڑی رہتی ہوں۔ سائنس نے مجھے عالمِ موجودات کے بہت سے رازوںسے واقف کردیا ہے۔ میں نے کیمسٹری پر اَن گنت کتابیں پڑھی ہیں۔ پہروں سوچا ہے‘ پر مجھے بڑا ڈر لگتا ہے___ اندھیری راتوںمیں مجھے بڑا ڈر لگتا ہے! خوش وقت سنگھ ! ___ خوش وقت سنگھ ! تمہیں اب مجھ سے مطلب؟
————————————-

The post Patjhad ki Awaz A Short Story by Qurratul Ain Haider appeared first on UrduChannel.

Tarekh E Zaban E Urdu

Intekhab E Kalam Nasir Kazmi

$
0
0

1
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا

2

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں

رنج سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاک کوچۂ دلبر ہی لے چلیں

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

3
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

 

4
آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو خواب شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے در و دیوار سا بھی ہو

جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے در کھلا بھی ہو

ہر ذرہ ایک محمل عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو

ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگئ غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو

بزم سخن بھی ہو سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

 

5
مسلسل بیکلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور بہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کر رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

 

6
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھل گئی تری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شب فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

 

7
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے

شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی ہیں تمام رنگ میرے

آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے

دیتے ہیں سراغ فصل گل کا
شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے

منزل نہ ملی تو قافلوں نے
رستے میں جما لیے ہیں ڈیرے

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

روداد سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے

 

8
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے

وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے

اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

 

9
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دیا جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں

تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں

 

10
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا
اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا

The post Intekhab E Kalam Nasir Kazmi appeared first on UrduChannel.


Sham E Aitbar 

$
0
0

✨”شام آفاق بنام اعتبار “✨
( گوونڈی میں شعری و اعزازی نشست )
گوونڈی 8 دسمبر 17 : شعبہ درس و تدریس بی ایم سی کے سرگرم معلم اور معمار کے اہم رکن مقصود آفاق کو ان کے شعری مجموعہ “اعتبار” کے لیے امسال مہاراشٹر اردو ساہتہ اکیڈمی کے ذریعے انعام سے نوازا گیا ہے ـ لہذا اس سلسلے میں معمار فاؤنڈیشن، ممبئی نے موصوف شاعر کے اعزاز میں ایک شعری و اعزازی نشست کا اہتمام بعنوان “شام آفاق بنام اعتبار “، گوونڈی (ممبئی ) میں کیا ـ عرفان سر تلاوت کلام پاک سے اس بزم آغاز کیا، وسیم شیخ نے اغراض و مقاصد پیش کیے اور پروگرام کو دو سیشن پر مشتمل کرنے کا اعلان کیا ـ پہلے سیشن میں بطور مہمان خاص تشریف فرما عارفہ شیخ سلیم (بی او ایم وارڈ ) نے اپنے تاثرات میں مقصود آفاق کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کو اپنے طلبا میں اتارنا بھی فن کے اہم مقاصد میں شامل ہے نیز یہ کہ علم و ادب میں سرگرم اشخاص کی خدمات کا اعتراف کرنا ایک بڑا کام ہے ایسی کاوشوں کے لیے وہ ہر طور معمار فاؤنڈیشن اور ان جیسے دیگر اداروں کے ساتھ ہیں جو اس طرز پر قائم ہیں ـ معروف شاعر و مترجم قاسم ندیم نے اپنے مقالے کے ذریعے شاعرِ ‘اعتبار’ کے فن کے تفہیمی پہلوؤں کو وا کیا تو نوجوان شاعر و ناقد محسن ساحل نے مقصود آفاق کے فن اور شخصیت پر اپنا مضمون پڑھا ـ عابد شیخ نے بطور ناشر اپنا مختصر مضمون پیش کیا جس میں انھوں نے مقصود آفاق کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا بھی مکمل احاطہ کیا ـ اس پروگرام کی صدارت فرما رہے ڈاکٹر قمر صدیقی نے شاعری کی روایتی روش، صالح اقدار، رجحانات، فن اور تخیلی شعور پر بھر پور روشنی ڈالی نیز مقصود آفاق کی شاعری سے متعلق کہا کہ مقصود کے حیطہ اظہار میں ہر طرح کا رنگ شامل ہے اگرچہ کہ حسن و جمال، عشق و رومان ، ہجر و وفا کے رنگ ان کی شاعری میں غالب رہے ہیں ـ

دوسرے سیشن میں ایک مختصر مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں صاحب اعزاز کے ساتھ ہی قمر صدیقی ، محسن ساحل ، اسماعیل راز، ارشاد راغب، علیم سر اور ذیشان ساحر جیسے شعراء نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ـ نظامت کے فرائض فروز قریشی اور محسن ساحل نے مشترکہ طور پر انجام دیے جبکہ اظہار تشکر وسیم شیخ نے پیش کیا ـ اس پروقار تقریب میں بی ایم سی کے اساتذہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ

The post Sham E Aitbar  appeared first on UrduChannel.

Urdu Ki Kahani by Syed Ehtisham Husain

Contribution of Hali A Brief View

$
0
0

حالی نے خود اپنے بارے میں کیا خوب بات کہی ہے
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ
یہ شاعرانہ تعلی نہیں ہے صاف اور کھلی حقیقت ہے ۔ اس دور میں حالی کے نایاب مال سے گاہک بے خبر تھے اور اس کی قدر و قیمت سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، لیکن آج ادب کے بازار میں ان ہی کا مال انمول ہے ۔ اس دور کے بہت سے کھرے سکے کھوٹے ثابت ہوچکے ہیں اور حالی کے سکے کو بہت جلد کھرا مان لیا گیا اور آج تک اسی سکے کا چلن ہے ۔
حالی کے اثرات اردو شعر و ادب پر اتنے گہرے اور دیرپا ہیں کہ اس کا تجزیہ مختصر مضمون میں ممکن نہیں ۔ انھوں نے اردو ادب کے چمن میں جو نئے اور صحت مند پودے لگائے تھے ، وہ آج بھی پھل دار تناور درخت بنے کھڑے ہیں ۔ حالی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے شاعری اور نثر کی کئی اصناف میں اپنی تخلیقات سے انقلاب پیدا کیا ۔ حالی سے پہلے یا ان کے بعد ہمیں بعض ایسی ادبی شخصیتیں نظر آتی ہیں جنھوں نے شاعری یا نثر کی کسی صنف کو نیا موڑ دیا اور اس کے دھارے بدل دئے ۔ چنانچہ انھیں اس صنف کی حد تک امام مانا گیا ، لیکن کسی کو حالی جیسا امتیاز حاصل نہیں ہوا، جنھیں کئی شعری اور نثری اصناف میں امام اور بانی کی حیثیت حاصل ہے۔

صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے کہ سادگی اور دردمندی حالی کی سیرت کی نمایاں خصوصیات تھیں اور ان کی تخلیقات میں یہ خوبیاںکوٹ کوٹ کر بھری ہیں اور حالی کا ادب حالی کی شخصیت اور سیرت کا عکس ہے ۔ ہمیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ کن باتوں اور کن شخصیتوں نے حالی کو حالی بنایا ۔ کس کے کہنے پر انھوں نے شاعری اور ادب کی خدمت کرنے پر توجہ دی ۔کن کن بزرگوں اور ہم عصر شخصیتوں نے ان کے ذوق شعری کو نکھارا اور کس کی تحریک نے حالی کو اپنی طرف کھینچا ۔
سب سے پہلے حالی کو غالب کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ جس وقت حالی غالب سے ملے اس وقت ان کی عمر 17 برس ہوگی ۔ حالی میں طبعی میلان اور شاعری کا جوہر دیکھ کر غالب نے خلاف معمول انھیں فکر شعر کی صلاح دی ۔ حالی کی نظر اور بصیرت کا کیا کہنا ۔ اپنی کم عمری اور غالب کی غیر مقبولیت کے باوجود انھوں نے غالب کی عظمت اور بڑائی کا صحیح اور بھرپور اندازہ کرلیا تھا ۔ حالی غالب کی شاعری کے دل سے معترف تھے ۔
حالی نے غالب سے زیادہ مصطفی خان شیفتہ کی صحبت سے فیض پایا ۔ شیفتہ کے خیالات اور مذاق نے حالی پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ۔
شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی کو پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی ۔ یہاں انگریزی کتابوں کے اردو ترجموں کی اصلاح کا کام ان کے ذمے تھا ۔ یہاں چار برس کے قیام نے ادب کے بارے میں حالی کے خیالات ، نظریات اور مذاق میں بڑی تبدیلی پیدا کی ۔ جب حالی لاہور سے نکلے تو انہیں سرسید کی تحریک نے اپنی طرف کھینچا اور انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اس تحریک کی نذر کردیں ۔
حالی کا نظریہ یہ تھا کہ علم و ادب اور شعر و حکمت کے ذرائع کو اصلاح معاشرہ اور تہذیب اخلاق کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ استعمال کیا جانا چاہئے ۔ چنانچہ وہ جدید ادب کی تحریک کے علمبرداروں میں شامل ہوگئے کہ اردو شعر و ادب کے ان سانچوں کو بدلا جائے، جو نئے حالات و تصورات سے اب کوئی مطلب نہیں رکھتے جو فرسودہ اور ازکار رفتہ ہوچکے ہیں ۔ وہ ادیبوں ، شاعروں اور اردو کی علمی و ادبی سوسائٹی کو اس مصنوعی فضا سے نکالنا چاہتے تھے جہاں نئے افکار کا دم گھٹتا جارہا تھا۔

حالی کی خوبی صرف یہی نہیں تھی کہ وہ خواب ہی دیکھتے اور منصوبے بناتے تھے بلکہ حقیقی معنی میں عالم باعمل تھے اور اپنے خوابوں کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے مسلسل سرگرم عمل رہنا جانتے تھے ۔ انھوں نے ادب اور زندگی کے تعلق سے جو نیا سائنٹفک نظریہ اختیار کیا اسے انھوں نے اپنے ادب اور زندگی میں ایک مستقل اور باقاعدہ رویے کی شکل دی ۔ اگر حالی کی تخلیقی قوتیں اعلی پایے کی نہ ہوتیں تو ان کی نظم و نثر سپاٹ اور موضوعاتی چیزیں بن کر رہ جاتیں اور اس پر شعوری کوشش کا گمان ہوتا ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ حالی اپنی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک ایسے تخلیق کار بھی ہیں جن کی تخلیقی قوتوں کا سرچشمہ بہت دور تک اور بہت بڑے پیمانے پر علم و ادب کی پیاسی اور سنگلاخ زمین کو سیراب اور شاداب کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح خود یہ بات بھی اردو ادب کو حالی کی بڑی دین بن جاتی ہے ۔
شاعری کے بارے میں حالی کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ان کا یہ قطعہ بڑی مدد دیتا ہے ۔
اے شعر دل فریب نہ ہوتو تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو
صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو
جوہر ہے راستی کا اگر تیری ذات میں
تحسین روزگار سے ہے بے نیاز تو
حالی کے قیام لاہور کے دوران میں انجمن پنجاب کے زیر اہتمام مشاعرے منعقد ہوتے تھے ۔ ان میں مصرعہ طرح کی بجائے شاعروں سے کسی خاص عنوان پر طبع آزمائی کی درخواست کی جاتی تھی ۔
حالی اور آزاد نے بھی ان مشاعروں کے لئے نظمیں لکھیں ۔ ان کی نظمیں اردو میں ایک نئی چیز تھیں ۔

سرسید کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد حالی نے سنہ 1879ء میں مسدس حالی یا مدو جزر اسلام لکھی ، جو حالی کی شاعری کا بڑا کارنامہ ہے ۔ خلوص ، تاثیر اور شاعرانہ دردمندی کی ایسی مثال اردو کی کسی اور نظم میں مشکل سے ملے گی ۔ اس نظم کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ایسی شہرت اور مقبولیت بھی کسی اور نظم کو نصیب نہ ہوئی ۔ یہ نہ صرف اردو کی پہلی طویل نظم ہے بلکہ یہ پہلی مقصدی اور اصلاحی نظم ہے ۔ اس نظم سے اردو شاعری میں واقفیت ، افادیت اور اجتماعیت کے رجحانات آئے ۔ اس نظم نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا کہ شاعری سے اصلاح و انقلاب کا کام لیا جاسکتا ہے ۔ قاری اس نظم کے کسی حصے کو غیر دلچسپ نہیں پاتا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ساری نظم ایک ہی بحر میں ہونے کے باوجود حالی نے اس میں شروع سے آخر تک شعری آہنگ کو قائم رکھا ہے ۔ اس نظم کے بعد حالی نے کئی اور قومی نظمیں لکھیں ، جن میں مناجات بیوہ اور چُپ کی داد قابل ذکر ہیں ۔
حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا ۔ ابتدائی دور کی غزلوں میں روایتی رنگ پوری طرح موجود ہے ۔ زبان میں رنگینی اور دل کشی بھی ہے لیکن حالی غزل کے مخالفین میں سے تھے اور قدیم رنگ سخن سے سخت بیزار تھے ۔ چنانچہ لاہور سے دہلی آنے کے بعد 1875 ء سے انھوں نے نئے رنگ اور نئے انداز کی غزل گوئی کا آغاز کیا ۔ حالی کی جدید غزل اخلاقی اور اصلاحی خیالات کی ترجمان ہے ۔
عام طور پر حالی نے غزل میں علامتوں سے انحراف کیا ۔ غزل کی علامتیں نئے تجربوں اور تازگیٔ اظہار حائل ہورہی تھیں ۔ وہ اظہار کے لئے نئے امکانات کی جستجو میں تھے کیونکہ غزل کی علامتیں سیر پذیر نقطہ پر پہنچ چکی تھیں ۔ ہر انفرادی تجربہ مروجہ علامتوں کے استعمال کی وجہ سے فرسودہ معلوم ہوتا تھا ۔

ہر دانشور کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے تجربوں میں پیرایۂ اظہار کی تازگی ہو اور انداز بیان دوسروں سے مختلف ہو ۔ ایک جیسے یا عام تجربے کو وہ انفرادی اظہار بیان کے ذریعے شاداب بنانا چاہتے تھے ۔ اس لئے انفرادیت کے اظہار کے لئے انھوں نے راست اظہار کا پیرایہ استعمال کیا ۔ حالی کی غزل سے روایتی علامتیں پوری طرح غائب نہیں ہیں ۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی غزل کا بنیادی instrument پرانی علامتیں نہیں ہیں ۔
حالی اردو میں جدید طرز کی سوانح نگاری کے بانی ہیں ۔ حالی نے جن اصولوں کو پیش نظر رکھ کر سوانحی تصانیف مرتب کیں اردو میں سوانح نگاری اسی راہ پر چل پڑی ۔ حیات سعدی ، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ کے بعد اردو میں ان شخصیتوں کی اس سے بہتر سوانح نہیں لکھی گئیں ۔ اردو میں یادگار غالب کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی غالب کی حیات اور شاعری پر قلم اٹھانا چاہے تو یادگار غالب سے رجوع ہوئے بغیر کام نہیں چلتا ، حالانکہ اس وقت غالب پر مضامین اور کتابوں کا انبار لگ چکا ہے ۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب سوانح نگار کسی ایسی بڑی شخصیت کی سوانح لکھتا ہے جو بقید حیات ہو یا جس سے مصنف کے تعلقات قریبی اور گہرے ہوں تو ایسی صورت میں سوانح نگار ایسے واقعات کے تذکروں کی بھرمار کردیتا ہے جن میں وہ بھی شریک ہے ۔ اس کی کتاب تصویروں کا ایسا البم بن جاتی ہے ، جس کی ہر تصویر میں مصنف خود موجود رہتا ہے ۔ حالی میں انکسار کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہے اور خود نمائی سے تو وہ کوسوں دور ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی سوانحی تصانیف میں اہم اور ضروری واقعات میں بھی اپنے تذکرہ کو شامل کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔
حالی سے پہلے اردو تنقید کا وجود باقاعدہ فن کے طورپر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ تذکروں یا دیگر تحریروں میں جو تنقیدی اشارے اور تنقیدی خیالات ملتے ہیں ان سے تنقید کے اصول وضع کرنا ممکن نہیں ۔ مقدمۂ شعر و شاعری تنقید کے میدان میں پہلی لیکن بہت اہم اور وقیع کوشش ہے ۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں شعر کے بنیادی اصولوں اور شاعری کے مقصد پر بحث کی ہے ۔ شاعری کے بارے میں عام طور پر جو غیر صحت مند تصورات پائے جاتے تھے حالی نے انھیں دو رکرنے ، شاعری کے افادی پہلو کو واضح کرنے اور شاعروں کو حقیقت اور زندگی سے قریب کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے خیالات اور نظریات پر کافی غور و فکر کے بعد ان سے استفادہ کیا ۔ ان کی تنقید سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور آج تک اردو تنقید میں جو ارتقاء ہوا مقدمہ شعر و شاعری کا مرہون منت ہے ۔

سرسید نے پہلی بار رسالۂ تہذیب الاخلاق کے ذریعے اردو زبان کو توسیع دینے اور اسے ادبی اور علمی زبان بنانے کی شعوری کوشش کی تھی ۔ وہ اردو نثر کے ایک ایسے طرز کو مستقل طور پر رواج دینا چاہتے تھے جو رواں ، سلیس اور عام فہم ہو اور ساتھ ہی ساتھ علمی اور ادبی کاموں کے لئے موزوں بھی ہو ۔ سرسید کے رفقاء میں ان کی اس تحریک کو جس شخض نے سب سے زیادہ پروان چڑھایا وہ حالی ہیں ۔ حالی نے اس طرز تحریک کے ایسے کامیاب نمونے اپنی نثر کے ذریعے پیش کئے کہ سرسید کے مشن کی تکمیل ہوگئی ۔
حالی کے کئی ہم عصر صاحب طرز ادیب تھے لیکن حالی کے طرز اور اسلوب ہی کو مقبولیت اور بقائے دوام حاصل ہوا ۔

حالی نے شاعری کے لئے جو زبان استعمال کی ہے وہ بھی کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے ان کے یہاں لکھنؤ کی شاعری کی طرح دل کشی ، حسن اور نفاست نہیں ملے گی لیکن یہی کمی ان کی شاعری کا حسن ہے ۔ حالی کی شاعری کو پڑھنے والا خواہ وہ دہلی کا ہو یا لکھنؤ کا ، پنجاب کا ہو یا حیدرآباد کا بڑی آسانی سے شاعری کی بات سمجھتا اور سردھنتا ہے ۔ حالی کی زبان پر کسی خاص علاقے کی چھاپ نہیں ہے ۔ یہ وہ زبان ہے جو ساری اردو دنیا میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے ۔
اردو زبان اور ادب کی زلفیں سنوارنے والوں میں بہت سے نام ملتے ہیں لیکن حالی کا چہرہ بار بار سامنے آتا ہے ۔ اردو زبان اور اس کی ہمہ گیری کے لئے جس ادبی شخصیت نے سب سے زیادہ حصہ ادا کیا وہ بلاشبہ الطاف حسین حالی ہیں ۔

———————————————-

The post Contribution of Hali A Brief View appeared first on UrduChannel.

Qawaid E Urdu … Urdu Crammer

Sipar E Dil

Dariya E Latafat

Intekhab E Kalam E Meer


Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous

$
0
0

تیس سال کی عمر ہونے سے پہلے مجھے کوئی مشکل لاحق نہیں تھی۔۔۔! میں ایک عام انسان تھا، بزنس میں ڈپلوما حاصل کیا، سرکاری نوکری مل گئی، تنخواہ بھی معقول ہوگئی، ماہانہ پچیس پاؤنڈ تنخواہ تھی۔ اسٹیشن گراؤنڈ میں واقع ایک بڑی عمارت کی اعلی ترین منزل پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں سکونت پذیر تھا۔ زندگی میں زیادہ خواہشات نہیں تھیں، نہ میں کسی کو تنگ کرتا تھا نہ کوئی مجھے، نہ مجھے کسی کا احساس تھا نہ کسی کو میرا۔ ہاں، شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔۔۔!!
پھر ایک دن میرا رفیقِ کار استاذ عبد العظیم ایک بہت بڑی بہت ہی بڑی دوربین لے کر آیا۔ یہ دوربین ویسی نہیں تھی جیسی کہ گھوڑسواری مقابلہ کے شائقین استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک جنگی دوربین تھی جس کا استعمال افسران میدانِ جنگ میں کرتے ہیں۔ دوربین نہیں بلکہ کوئی جنگی ہتھیار معلوم پڑ رہی تھی۔ دوربین میں ایک ہی آنکھ تھی۔ لینس کو چھوٹا بڑا کیا جا سکتا تھا۔ لینس کی سیٹینگ کے لئے مخصوص گنتیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ دوربین نصب کرنے کے لئے ایک اسٹینڈ بھی تھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ دوربین میرے حواس پر چھا گئی۔۔۔!
معلوم نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ جب دوربین کو پکڑا تو یوں لگا کہ جیسے میں اس دوربین کو پا کر دنیا کا سب سے خوش و خرم انسان بن سکتا ہوں۔۔۔!
استاذ عبد العظیم مجھے دوربین کے طریقہ استعمال کے بارے میں بتانے لگا پھر اسے کھڑکی کے سامنے نصب کر دیا، اس کا لینس سیٹ کیا اور اس میں دیکھ کر چلایا:
– آ، دیکھ اس پٹاخہ کو جو کھانا پکا رہی ہے۔۔۔!
میں نے اپنی آنکھ دوربین پر رکھی اور استاذ عبدالمقصود سے پوچھا:
– کہاں، کہاں ہے وہ پٹاخہ؟
جواب میں استاذ عبد العظیم نے ساحۃ اسٹریٹ پر واقع ایک دوردراز عمارت کی جانب اشارہ کیا اور بولا:
– اس عمارت میں۔۔۔!
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔ہم وزارۃ کی کھڑکی سے لاظوغلی میدان کو دیکھ سکتے تھے۔ میرے اور اس کے درمیان ٹرام کے چار اسٹیشن واقع تھے، اس کے باوجود مجھے یہ لگ رہا تھا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھولوں گا۔۔۔!!
میں نے اپنی آنکھ پھر سے دوربین کے ساتھ لگادی۔۔۔وہ رہی اس کی اوڑھنی جس سے وہ اپنی زلفوں کو باندھے ہوئے ہے، پیلے رنگ کی اس کی گاؤن جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، اس کے پیروں کی جوتی بھی دکھائی دے رہی تھی، نہ صرف جوتی بلکہ اس کا رنگ بھی عیاں تھا، جوتی کا رنگ لال تھا۔۔۔مجھے وہ کھانا بھی دکھائی دے رہا تھا جسے وہ پکا رہی تھی۔۔۔بھنڈی پکا رہی تھی۔۔۔!
یاہو۔۔۔!
میں نے جب دوربین سے اپنی آنکھ ہٹائی تو میری سانسیں حیرت و استعجاب کے مارے اکھڑ رہی تھیں۔ میں نے استاذ عبد المقصود سے پھنسی پھنسی سی آواز میں پوچھا:
– بیچے گا؟
استاذ عبد المقصود سخت مٹی کا بنا ہوا تھا، نخرے دکھانے لگا، میں گزارش کرتا رہا بلکہ گڑگڑاتا رہا تب جا کر پگھلا۔ دس پاؤنڈ میں دوربین فروخت کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ طے یہ پایا کہ کل قیمت پانچ پانچ پاؤنڈ کے حساب سے دو قسطوں میں ادا کروں گا۔۔۔
میں نے دوربین یوں اٹھائی جیسے کہ میرا کل سرمایہ حیات ہو، اٹھا کر اسے اپنے گھر لایا اور بالکنی کی دیوار پر نصب کر دیا۔ دن کے بچے کھچے وقت میں اس کے لینس کو ہی سیٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔!!
اوہو۔۔۔!
اسٹیشن گراؤنڈ میں رہتے ہوئے 26 جولائی اسٹریٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے کمروں کے اندر کیا چل رہا ہے یہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ ریوولی سینما کے اوپر واقع نائٹ کلب کی شوخ سرگرمیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اور۔۔۔!
میں نے دوربین کا رخ اپنے اردگرد واقع گھروں کی جانب کر دیا، ان کی کھڑکیوں کے راستے!!
دوربین میں ایک جوان عورت دکھائی دی، اس کے پہلو میں ایک آدمی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، شاید اس کا شوہر تھا۔۔۔عورت مرد پر جھک جھک کر اس کے منہ میں نوالے ڈالتی، پھر اس کو بوسہ دیتی، مرد گھوم کر اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیتا اور بوسہ دیتا، پھر کھانا کھانے لگتا۔۔۔اور۔۔۔یہ کیا ہے؟!!!
ایک حسینہ اپنے کپڑے اتار رہی ہے، میری نظروں نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ کمرے سے غائب ہوگئی، شاید غسل خانہ میں چلی گئی تھی۔۔۔پھر آئی، شب بسری کا لباس زیب تن کیا اور بستر پر دراز ہوکر پڑھنے لگی۔۔۔کتاب کا ٹائٹل تھا: میرا اکلوتا پیار۔۔۔پھر لائٹ بجھ گئی۔۔۔!
اور۔۔۔
ایک بوڑھا آدمی تھا۔۔۔یونانی لگ رہا تھا۔۔۔زیتون کے تیل اور گوشت کے پارچہ سے تیار کردہ کھانا کھا رہا تھا، اس کے نزدیک اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی، اسی کی طرح عمردراز تھی، کھا نہیں رہی تھی، لیکن اس کی زبان چل رہی تھی۔۔۔بہت بولتی ہے یہ عورت۔۔۔!
میں چار بجے صبح تک دوربین سے اپنی آنکھ لگائے کھڑا رہا۔۔۔جب تمام روشنیاں بجھ گئیں اور دیکھنے کو کچھ نہ رہا۔۔۔تو میں بھی سو گیا۔۔۔
شاید میں سویا نہیں تھا۔۔۔میں نے صرف اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں تاکہ دیکھے ہوئے مناظر کو پھر اے دیکھ سکوں۔۔۔لوگوں کی نجی زندگی سے جڑے ہوئے مناظر باریک ترین تفاصیل کے ساتھ۔۔۔لوگ اپنی نجی زندگی میں نا، ایک عجیب و غریب اور دلچسپ مخلوق ہیں، گلیوں اور سڑکوں میں ملنے والے لوگوں سے بالکل مختلف۔۔۔!
میں نے سات بجے کراہتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور دوڑتے بھاگتے بالکنی تک پہونچا اور پھر دوربین پر نگاہ جما دی۔۔۔لوگ اچھل کود رہے تھے، اپنے چہرے دھو رہے تھے، کچھ پژمردہ تھے تو کچھ ہشاش بشاش۔۔۔!
کیا جانتے ہو کہ سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو ٹھیک اسی طرح بستر سے اترے جیسا کہ دوسرا اترتا ہے۔۔۔؟! کیا یہ بھی جانتے ہو کہ ایک بھی شوہر ایسا نہیں ہے جو صبح آنکھیں کھلنے پر اپنی بیوی کو بوسہ دیتا ہو۔۔۔؟! بلکہ سب سے پہلے وہ اپنا رخ اس کی جانب سے پھیرتا ہے۔۔۔! عجیب و دلچسپ زندگی ہے یہ لوگوں کی نجی زندگی بھی۔۔۔!! جب گھڑی کی سوئی آٹھ پر پہونچی تو میرے منہ سے ایک آہ نکلی۔۔۔آج کام پر پہونچنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔۔۔اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں کام سے لیٹ ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے جلدی سے کپڑا پہنا اور وزارۃ کی جانب چل دیا۔۔۔خلاف عادت ساتھیوں سے بات تک نہ کی۔۔۔میں اسی زندگی میں گردش کرتا رہا جسے میں نے دوربین سے دیکھا تھا۔۔۔بلکہ اپنے سامنے ڈھیر کی صورت میں پڑی فائلوں میں سے ایک بھی فائل پر توجہ مرکوز نہ کر سکا۔۔۔میرا دل کام سے اچاٹ ہوگیا تھا۔۔۔یہی انتظار کرتا رہا کہ کب گھر واپس جانے کا وقت ہو۔۔۔وقت ہوتے ہی گھر کی طرف مجنونانہ انداز میں دوڑا اور بھاگ کر دوربین پر آنکھ ٹکا دی۔۔۔
دن گزرتے گئے۔۔۔
میری پوری زندگی اسی تنگ لینس میں محصور ہو کر رہ گئی تھی جس کے سہارے میں لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکتا تھا۔۔۔میں نے ان لوگوں کو اس طرح جان لیا تھا جس طرح انہیں کوئی اور نہیں جانتا تھا اور جس طرح وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں جانے۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ہی رہ رہا ہوں۔۔۔میں ان میں سے ہر ایک کے لوٹنے کا وقت جان گیا تھا، یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور ان کی الماری میں کتنے جوڑے یا سوٹ ہیں۔۔۔ہر ایک کے مزاج کو پہچان گیا تھا۔۔۔ہر ایک کی انفرادیت بھی مجھ پر منکشف ہوگئی تھی۔۔۔مجھے اس کا بھی علم ہوگیا تھا کہ۔۔۔
مجھے اس کا بھی علم ہو گیا تھا کہ۔۔۔۔آہ۔۔۔مجھے ان کے بارے میں جو معلوم ہے، وہ مجھے بھی پوری طرح ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔۔۔اگر ان لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میں ان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں تو وہ مجھے جان سے مار ڈالنا چاہیں گے۔۔۔!
کبھی کبھی راستہ میں ان میں سے کسی کا سامنا ہو جاتا اور میں بے ساختہ ان سے مصافحہ کرنے کا ارادہ کرتا۔۔۔! مجھے لگتا کہ وہ میری زندگی کا حصہ ہے، میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح وہ خود کو نہیں دیکھ سکتا، بلکہ اس کی بیوی بھی اس کو اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔۔۔کبھی کبھی کسی کو وقار و ہیبت کے ساتھ چلتا دیکھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی۔۔۔جی بھر کر ہنستا۔۔۔یہ وہی ہے جسے میں نے کل اس کی بیوی کے پیروں پر پڑا دیکھا تھا۔۔۔کسی حسینہ کو ناز و نخرہ اور رعب و داب کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔۔۔یہ تو وہی ہے جس کو کل میں نے اس کے شوہر کے ساتھ دیکھا تھا، بے لگام و خونخوار جانور کی طرح تھا اس کا طرز ‘عمل’…!!!
دن گزرتے گئے۔۔۔!
میرے پاس دوربین کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔۔۔نہ دوست، نہ رشتہ دار، نہ احساس، نہ مزاج۔۔۔ نہ یہ۔۔۔نہ وہ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ہر چیز اسی دور بین میں مقید ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔!
پھر میں بیمار پڑگیا۔۔۔!
مجھے بستر سے اٹھ کر دوربین سے دیکھنے کی بھی تاب نہ رہی۔۔۔میرا وجود عذاب کی زد میں آ گیا۔۔۔مجھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے، میری حالت منشیات کے عادی ایسے شخص کی طرح ہوگئی جس پر منشیات نہ ملنے کی وجہ سے ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔۔۔!
لیکن اگلے دن دورہ کی شدت میں کمی آگئی۔۔۔اس کی جگہ بیماری کے آلام نے لے لی۔۔۔! میں بیحد بیمار ہو چکا تھا۔۔۔میں اپنے کمرے میں تنہا تھا۔۔۔مجھے ایک بھولی بسری ہوئی چیز یاد آگئی۔۔۔مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔۔۔ایک چیز اور یاد آئی، مجھے یاد آیا کہ میں بھولے بسرے ہوئے ملازمین کے زمرہ میں آ چکا ہوں۔۔۔مجھے بیس سے بھی زیادہ سالوں سے نہ تو کوئی ترقی ملی تھی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی اضافہ۔۔۔ہاں۔۔۔!
میں خود کو بھول چکا تھا۔۔۔!
میں اپنی خود کی زندگی بھول چکا تھا۔۔۔اور لوگوں کی زندگیوں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی زندگی کا ستیاناس کر چکا تھا!
وجہ۔۔۔؟!
وجہ یہ دوربین ہے۔۔۔!
میرے اندر دوربین کے خلاف غیظ و غضب کا طوفان امڈ پڑا۔۔۔میں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے ہی رہوں گا۔۔۔میں اسے توڑ کر ہی رہوں گا۔۔۔مجھے اپنی زندگی جینی ہوگی، دیگر لوگوں کی نہیں۔۔۔میں خود پر ضبط کرتے ہوئے اور درد و الم سے لڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بالکنی کی جانب بڑھا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے دوربین اٹھائی تاکہ اسے سڑک پر پھینک کر چکناچور کر دوں۔۔۔
لیکن۔۔۔
دوربین کو اس کی جگہ سے نکالنے سے پہلے میں نے اپنی آنکھ چھوٹے لینس پر ٹکا دی۔۔۔اور پھر اس کو وہاں سے ہٹا نہیں پایا۔۔۔۔!!!


معروف مصری افسانہ نگار احسان عبد القدوس کے اس افسانے کا ترجمہ جناب شمس الرب نے براہ راست عربی سے کیا ہے۔ شمس الرب ممبئی کے مہاراشٹر کالج میں عربی کے استاذ ہیں اور ترجمے پر قابلِ قدر دسترس رکھتے ہیں۔

——————————————————-

The post Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous appeared first on UrduChannel.

Cuddapah Mein Urdu by Rahi Fidai

Russian Folk Tale

$
0
0

ساشا اپنی امی سے ضد کر رہا تھا کہ وہ اس کو پٹاخوں والی بندوق لے کر دیں۔
’’تمہیں وہ کس لئے چاہئے؟‘‘ اس کی امی نے پوچھا ’’وہ تو بڑی خطرناک ہوتی ہے۔‘‘
’’خطرناک کیسے ہوتی ہے؟‘‘ وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، اس میں سے صرف پٹاخہ چلتا ہے، گولی تو باہر نہیں آتی ہے، اس سے کوئی مر تو نہیں سکتا۔‘‘
’’تمہیں نہیں پتا کہ اس سے کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ اس کی امی نے جواب دیا ’’گولی اچھل کر باہر نکل سکتی ہے اور تمہاری آنکھ میں بھی لگ سکتی ہے۔‘‘
’’وہ نہیں لگے گی۔‘‘ ساشا نے کہا۔ ’’میں گولی چلاتے ہوئے اپنی آنکھیں کس کے بند کرلوں گا۔‘‘
’’نہیں، نہیں اس قسم کی بندوقوں سے کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔‘‘ ساشا کی امی نے کہا۔ ’’تم اگر اس سے کسی کو مار نہیں سکتے تو لوگوں کو خوف زدہ تو کرسکتے ہونا۔‘‘ خیر انہوں نے ساشا کو بندوق خرید کر نہ دی۔
ساشا کی دو بہنیں مرینہ اور عائرہ تھیں۔ وہ ان کے پاس گیا۔
’’پیاری بہنو! براہ مہربانی مجھے ایک بندوق خرید دو۔ مجھے اس کی بہت خواہش ہے۔ اگر تم نے وہ مجھے دلا دی تو میں ہمیشہ تم دونوں کا کہنا مانا کروں گا۔‘‘
’’ساشا تم واقعی بڑے چالاک ہو۔‘‘ مرینہ نے کہا۔ ’’جب تمہیں چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو تم چکنی چپڑی باتیں کرنے لگتے ہو اور ہمیں پیاری بہنو کہنے لگتے ہو۔ لیکن جب ذرا امی گھر پر نہیں ہوتیں تو تم اپنی ساری خوش مزاجی بدل لیتے ہو۔‘‘
’’نہیں میں ایسا نہیں کروں گا، ہرگز نہیں کروں گا، میں تمیز سے رہوں گا، آزما کر دیکھو، میں ایسا نہیں کروں۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ عائرہ نے کہا
’’میں اور مرینہ سوچیں گے۔ اگر تم اچھا لڑکا بننے کا وعدہ کرتے ہو تو ہم تمہیں بندوق خرید دیں گے۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں، میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ ساشا نے کہا۔
’’اگر تم دونوں مجھے بندوق خرید دوگی تو مجھ سے جو بھی کہو گی، میں کروں گا۔‘‘
اگلے دن اس کی بہنوں نے اسے بندوق اورپٹاخوں والی گولیوں کا ڈبہ تحفے میں دے دیا۔ بندوق بالکل نئی اور چمک دار تھی۔ اس کے ساتھ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پٹاخوں والی گولیاں بھی تھیں۔
وہ اپنی خوشی کیلئے انہیں چلا سکتا تھا۔ ساشا خوشی کے مارے کمرے میں اچھلا کودا۔ اس نے بندوق کو بڑا پیار کیا یہاں تک کہ اس نے ’’میری اچھی بہت ساری بندوق! مجھے تم سے بہت زیادہ محبت ہے۔‘‘ کہتے ہوئے اسے چوما بھی۔ اس کے بعد اس نے اس کے دستے پر کھرچ کر اپنا نام لکھا اور پھر فائر کرنا شروع کردیا۔ فوراً کمرے میں پٹاخوں کی بوپھیل گئی اور آدھے گھنٹے بعد کمرا دھوئیں سے بالکل نیلا ہوگیا۔
’’اب تک کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ آخر کار عائرہ نے کہا۔ ’’ہر بار جب بندوق چلتی ہے تو میں اچھل جاتی ہوں۔‘‘
’’بزدل کہیں کی‘‘ ساشا نے دندان شکن جواب دیا۔ ’’ساری لڑکیاں بزدل ہوتی ہیں۔‘‘
’’اچھا تو ٹھیک ہے۔ جب میں تم سے بندوق واپس لے لوں گی پھر تمہیں دکھاؤں گی کہ ہم کتنی بزدل ہیں۔‘‘ مرینہ نے کہا۔
’’میں باہر صحن میں جارہا ہوں۔‘‘ ساشا نے جواب دیا ’’بچوں کو اپنی بندوق سے خوف زدہ کرنے کیلئے۔‘‘ اور وہ باہر چلا گیا لیکن وہاں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس لئے وہ گیٹ سے باہر نکل گیا اور یہیں سے اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
اسی لمحے ایک بوڑھی عورت گلی میں سے گزر رہی تھی، ساشا نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ’’ٹھاہ‘‘ اس نے اس کے پیچھے چپکے سے بندوق چلا دی۔ ایک حیران کن چیخ کے ساتھ بوڑھی عورت وہیں رک گئی۔ پھر پیچھے مڑتے ہوئے وہ بولی: ’’اوہ! تم نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ تم ہی تھے جس نے بندوق چلائی۔‘‘
’’نہیں تو۔۔۔‘‘ ساشا نے بندوق اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھ سکتی؟‘‘ بوڑھی عورت نے کہا ’’اور تم مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔ میں سیدھا پولیس اسٹیشن جارہی ہوں۔‘‘ اپنی انگلی ہلاتے ہوئے اس نے سڑک پار کی اور ایک طرف گلی میں غائب ہوگئی۔
’’ایسا لگتا ہے سچ مچ پولیس کو بلانے چلی گئی ہے۔‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر بھاگ گیا۔ ’’تمہیں کیا ہوا ہے جو اتنے خوف زدہ لگ رہے ہو؟ جیسے بھیڑ یا تمہارا پیچھا کر رہا ہے۔‘‘ ساشا گھر میں داخل ہوا تو اس کی بہن عائرہ نے پوچھا۔ ’’بہتر یہی ہے کہ بتا دو یہ تو تمہارے چہرے پہ لکھا ہوا ہے کہ تم نے کچھ کیا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ ساشا کی سانس پھول گئی۔
’’صرف یہ ہوا کہ میں نے ایک بوڑھی عورت کو ڈرا دیا ہے۔‘‘
’’کیسی بوڑھی عورت؟‘‘
’’کیسی بوڑھی عورت سے تمہارا کیا مراد ہے؟‘‘ ساشا نے کہا ’’بس کوئی بوڑھی عورت تھی جو گلی میں سے گزر رہی تھی، مجھے نظر آگئی تو میں نے گولی چلا دی۔‘‘
’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ اس کی بہن نے پوچھا۔
’’مجھے خود نہیں پتا۔‘‘ ساشا نے کہا ’’وہ چل رہی تھی اور میں نے اپنے آپ سے کہا چلو بھئی اس کو گولی مار دو اور میں نے ایسا کردیا۔‘‘
’’پھر اس کا کیا بنا؟‘‘ عائرہ نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں، وہ پولیس اسٹیشن چلی گئی ہے۔‘‘
’’دیکھانا‘‘ عائرہ نے کہا
’’تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ تمیز سے رہو گے اور اب دیکھو تم نے کیا کیا ہے۔‘‘
’’میرا کیا قصور ہے۔ بوڑھی عورت کی شکل ہی ڈراؤنی بلی جیسی تھی۔‘‘ ساشا نے بڑے غرور سے کہا۔
’’اب ایک پولیس والا آئے گا اور تمہیں خوب مزہ چکھائے گا۔‘‘ عائرہ نے بات جاری رکھی۔ ’’تب تمہیں پتا چلے گا کہ لوگوں کو ڈرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ مجھے کیسے ڈھونڈے گا؟‘‘ ساشا نے پوچھا۔ ’’اسے کیا پتا کہ میں کہاں رہتا ہوں، وہ تو میرا نام تک نہیں جانتا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو۔ وہ ڈھونڈ لے گا۔‘‘ عائرہ نے کہا ’’پولیس والوں کو سب پتا ہوتا ہے۔‘‘
پورا گھنٹہ ساشا عاجزی سے بیٹھا کھڑکی میں سے باہر دیکھتا رہا کہ کہیں سے کوئی پولیس والا تو نہیں آرہا ہے۔ لیکن کوئی بھی پولیس والا نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پرسکون ہوا اور تھوڑا سا اکڑ کر بولا ’’یقیناًاس بڑھیا نے مجھے ڈرانے اور سبق سکھانے کیلئے ایسا کہا تھا۔‘‘
پھر اس نے اپنی پیاری بندوق کے ساتھ فائر کرنے کا سوچا اور اس کا ہاتھ اس کی جیب کی طرف گیا۔ اسے پٹاخوں والی ڈبیا مل گئی۔ اس کے بعد اس نے بندوق کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا لیکن بندوق نہ ملی۔ تب اس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کمرے میں تلاش شروع کردی۔ اس نے میز اور صوفے کے نیچے جھانکا بندوق اس طرح غائب تھی جیسے زمین نے نگل لی ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ’’مجھے اس سے کھیلنے کا ٹھیک وقت ہی نہیں ملا۔‘‘ اس نے سسکی لی۔ ’’وہ تھی بھی تو اتنی اچھی۔‘‘
’’کہیں تم نے وہ صحن میں تو نہیں گرادی؟‘‘ عائرہ نے پوچھا۔
’’ہوسکتا ہے وہ گیٹ سے باہر کہیں گر گئی ہو۔‘‘ ساشا نے اچانک پوچھا۔
اس نے دروازہ کھولا اور صحن میں سے دوڑتا ہوا باہر گلی میں آگیا لیکن وہاں بندوق کا نام ونشان تک نہ تھا۔
’’کسی نے اٹھا کر اپنے لئے رکھ لی ہوگی‘‘ اس نے دکھ سے سوچا۔ تب اچانک ایک پولیس والا ایک گلی سے نکل کر تیزی سے اسے اپنی جانب آتا ہوا نظر آیا۔ وہ سیدھا ساشا کے گھر کی طرف آرہا تھا۔ ’’وہ میری طرف آرہا ہے‘‘ ساشا نے سوچا۔ ’’اس بوڑھی عورت نے میرے بارے میں بتا دیا ہوگا؟‘‘
اور پھر وہ جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا، گھر کی طرف بھاگا۔
’’کیا بندوق مل گئی ہے؟‘‘ مرینہ اور عائرہ نے پوچھا۔
’’شش‘‘ ساشا نے سرگوشی کی۔ ’’پولیس والا آرہا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’یہاں ہمارے گھر میں‘‘ ساشا بڑ بڑایا۔
’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘
’’گلی میں‘‘
مرینہ اور عائرہ نے اس پر ہنسنا شروع کردیا۔
’’تم کتنے بزدل ہو! پولیس والے پر ایک نظر پڑتے ہی تمہاری گھگھی بندھ ہوگئی ہے۔ وہ پولیس والا غالباً کہیں اور جارہا ہوگا یہاں نہیں آرہا ہوگا۔‘‘
’’میں اس سے نہیں ڈرتا‘‘ ساشا نے کہا۔
’’میرے آگے پولیس والا کیا چیز ہے؟‘‘
اسی لمحے دروازے پر بھاری قدموں کی آواز سنائی دی اور چانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ مرینہ اور عائرہ دروازہ کھولنے کیلئے بھاگیں۔ ساشا اپنا سر گھما کر ڈرائنگ روم کی طرف لپکا اور پھنکارا ’’اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘
لیکن مرینہ پہلے ہی دروازہ کھول چکی تھی اور وہاں ایک پولیس والا کھڑا تھا جس کے کوٹ پر چمک دار بٹن لگے ہوئے تھے۔ ساشا چاروں شانے چت لیٹ گیا اور رینگتا ہوا صوفے کے پیچھے چھپ گیا۔
’’تو بچیو! آپ مجھے یہ بتاؤ کہ فلیٹ نمبر6کہاں ہے؟‘‘
’’یہاں نہیں ہے‘‘ عائرہ نے کہا ’’یہ فلیٹ نمبر1ہے اگر آپ نے فلیٹ نمبر6ڈھونڈنا ہے تو چوک میں جائیے۔ فلیٹ نمبر6دائیں طرف کا پہلا دروازہ ہے۔‘‘
’’چوک میں جائیے دائیں طرف کا پہلا دروازہ ہے‘‘
پولیس والے نے آہستہ سے دہرایا۔
’’جی ہاں!‘‘ عائرہ نے کہا۔
ساشا کو پتا چل گیا کہ پولیس والا اسے پکڑنے نہیں آیا۔ وہ صوفے کے پیچھے سے رینگتا ہوا نکلنے ہی والا تھا کہ پولیس والے نے کہا ’’ویسے کیا یہاں ساشا نامی کوئی لڑکا نہیں رہتا؟‘‘
’’ہاں رہتا ہے!‘‘ عائرہ نے جواب دیا۔
’’اچھا یہ وہی لڑکا ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔‘‘
پولیس والے نے کہا اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا پھر مرینہ اور عائرہ نے دیکھا کہ ساشا کہیں غائب ہوگیا ہے۔ مرینہ نے تو صوفے کے نیچے تک جھانکا، ساشا نے اسے دیکھا تو بھینچی ہوئی مٹھیوں کے ساتھ دھمکی دی کہ وہ اسے باہر نہ نکالے۔
’’اچھا تو ساشا کدھر ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
لڑکیاں ساشا کیلئے ڈر رہی تھیں اور انہیں نہیں پتا تھا کہ جواب کیا دینا ہے۔ آخر مرینہ نے کہا ’’وہ اس وقت گھر پر نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ سیر کرنے نکلا ہے مگر آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’میں اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ہوں۔‘‘پولیس والے نے کہا ’’بس یہ جانتا ہوں کہ اس کا نام ساشا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے پاس بالکل نئی بندوق تھی جواب اس کے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’اس کو تو سب کچھ پتا ہے‘‘ ساشا نے سوچا۔ ڈر کے مارے اس کی ناک میں کھجلی شروع ہوگئی اور اچانک اسے چھینک آگئی۔ ’’آ آچھ‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘ پولیس والے نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ ہمارا۔۔۔وہ ہمارا کتا ہے۔‘‘ مرینہ نے جھوٹ بولا۔
’’تو پھر وہ صوفے کے نیچے کیا کر رہا ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’اوہ وہ ہمیشہ صوفے کے نیچے سوتا ہے۔‘‘ مرینہ نے جھوٹ جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’اوں۔۔۔ بوبی‘‘ مرینہ نے چقندر کی طرح سرخ پڑتے ہوئے کہا۔
’’بوبی بوبی باہر آجاؤ‘‘ پولیس والے نے پکارا اور اس نے کتے کیلئے سیٹی بجائی۔ ’’وہ باہر کیوں نہیں آنا چاہتا؟ آؤ بھئی آؤنا، کیا تم اچھے کتے نہیں ہو؟ کیا یہ اچھا کتا نہیں ہے؟ یہ کس نسل کا کتا ہے؟‘‘
’’اونہہ۔۔۔‘‘ مرینہ نے لفظ کھینچتے ہوئے مایوسی سے جواب دیا۔ اسے تو کچھ پتا نہیں تھا کہ کتوں کی کتنی قسمیں یا نسلیں ہوتی ہیں اور اس کی کیا نسل ہے؟ اس نے کہا ’’اچھا تو یہ کس نسل کا ہے؟ یہ اچھی نسل کا کتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ۔۔۔ اوہ ہاں یہ۔۔۔ لمبے بالوں والا لومڑی کی نسل کا کتا ہوتا ہے! یہ وہی ہے‘‘۔
’’اوہ کتنا زبردست کتا ہے‘‘ پولیس والے نے چہکتے ہوئے کہا ’’ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس کی پیاری سی نرم نرم بالوں والی ناک ہوتی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر صوفے کے نیچے جھانکا۔
ساشا ایسے لیٹا ہوا تھا جیسے زندہ نہیں بلکہ مردہ ہو۔
اس نے اپنی پوری کھلی ہوئی آنکھوں سے پولیس والے کو دیکھا۔
’’اچھا تو یہ جو یہاں پڑا ہوا ہے یہ ہے لومڑی کی نسل کا کتا‘‘۔ پولیس والے نے کہا۔
’’اے تم صوفے کے نیچے کیا کر رہے ہو؟ لڑکے باہر نکلو۔ میں نے تمہیں ڈھونڈ لیا ہے‘‘ پولیس والا بولا۔
’’میں باہر نہیں نکلوں گا۔‘‘ ساشا نے واویلا مچاتے ہوئے کہا۔
’’کیوں بھئی‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جائیں گے‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کس وجہ سے؟‘‘
’’بوڑھی عورت کی وجہ سے‘‘ ساشا بولا ’’جس پر میں نے گولی چلائی تھی اور جوڈر گئی تھی‘‘۔
’’میں سمجھا نہیں کہ تم کس بوڑھی عورت کی بات کر رہے ہو؟‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’یہ باہر اپنی پٹاخوں والی بندوق سے گولی چلانے گیا تھا‘‘ عائرہ نے وضاحت کی، ’’کہ ایک بوڑھی عورت پاس سے گزری، پٹاخے کی آواز سن کر وہ ڈر گئی۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ پولیس والے نے کہا ’’تو یہ اس کی بندوق ہے؟‘‘ اور اس نے اپنے کوٹ سے ایک نئی نویلی چمک دار بندوق نکالی۔
’’یہی ہے، یہی‘‘ عائرہ نے خوشی سے چلانا شروع کردیا۔ ’’میں نے اور مرینہ نے اسے خرید کر دی تھی اور اس نے گم کردی تھی۔ یہ آپ کو کہاں سے ملی ہے؟‘‘
’’آپ کے دروازے کے باہر سے‘‘ پولیس والے نے جواب دیا۔ ’’اچھا یہ لو اور بتاؤ کہ تم نے بوڑھی عورت کو کیوں ڈرایا تھا؟‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ ساشا نے صوفے کے نیچے سے کہا۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’میں تمہاری آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں، مجھے سچ مچ بتا دو، میں تمہیں بندوق واپس کردوں گا۔‘‘
’’اگر میں نے سچ سچ بتا دیا تو میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تمہیں تمہاری بندوق واپس مل جائے گی اور کیا ہوگا‘‘
’’تو آپ مجھے پولیس اسٹیشن تو نہیں لے جائیں گے نا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’میرا مقصد بوڑھی عورت کو ڈرانا نہیں تھا۔‘‘ ساشا نے کہا۔
’’میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ گھبراتی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ یہ تو اچھی بات نہیں ہے ننھے دوست‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’اس کے لئے تو تمہیں پولیس اسٹیشن لے کر جانا ہی چاہیے تھا لیکن اب میں کیا کروں، میں نے تو کہہ دیا ہے کہ میں تمہیں پولیس اسٹیشن نہیں لے جاؤں گا اور وعدہ کی خلاف ورزی کرنا تو بہت بڑا جرم ہے۔ اس دفعہ میں نہیں لے کر جاؤں گا۔ لیکن اگر آئندہ میں نے تمہیں شرارتیں کرتے دیکھا تو پھر تمہیں تھانے لے جانا ہی پڑے گا۔ ٹھیک ہے اب باہر نکلو اور اپنی بندوق رکھ لو۔‘‘
’’نہیں میں بعد میں باہر نکلوں گا، جب آپ چلے جائیں گے‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کتنا مزاحیہ ہے ننھا دوست،‘‘ پولیس والا ہنس دیا۔ اس نے بندوق صوفے پر رکھی اور چلا گیا۔ مرینہ تیزی سے پولیس والے کے ساتھ اسے فلیٹ نمبر6دکھانے کیلئے چلی گئی جب کہ ساشا صوفے کے نیچے سے رینگتا ہوا باہر نکلا اور بندوق پر نظریں گاڑ کر اونچی آواز میں بولا یہ ہے میری قیمتی بندوق جو ایک بار پھر میرے پاس آگئی ہے۔ اس نے بندوق پکڑی اور کہا ’’ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ پولیس والے کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’تم نے خود ہی تو اپنا نام بندوق پر لکھا تھا‘‘ عائرہ نے کہا۔
اسی لمحے مرینہ واپس آگئی اور اپنے بھائی پر پل پڑی۔
’تم نے کتنی فضول حرکت کی،‘‘ وہ چلائی ’’تمہاری وجہ سے مجھے پولیس والے سے کئی جھوٹ بولنے پڑے میں تو شرم سے مری جارہی تھی، اب ذرا کرنا ایسے تماشے!! پھر دیکھنا میں تمہاری ذرا بھی مدد نہیں کروں گا۔ یہ آخری مرتبہ تھا۔‘‘
میں اب کوئی تماشا، کوئی فضول حرکت نہیں کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ ساشا نے کہا ’’میں اب جان گیا ہوں کہ کسی کو یوں ڈرانا نہیں چاہئے۔‘‘
——————————————————————-

The post Russian Folk Tale appeared first on UrduChannel.

100 Famous City

Duniya ke Azeem Mazahib

Viewing all 652 articles
Browse latest View live