The post Adab un Nabi appeared first on UrduChannel.
Adab un Nabi
Injeel , Injil Urdu Translation
InjeelBarnabaasUrduTranslation
The post Injeel , Injil Urdu Translation appeared first on UrduChannel.
Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi
شکست زنداں کا خواب
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں
———————————————————————
الوداع
اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع
الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع
الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع
تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے
آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے ‘قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر
روح ہر شب کو نکل کر میرے جسم زار سے
آ کے سر ٹکرائے گی تیرے در و دیوار سے
ہائے کیا کیا نعمتیں مجھ کو ملی تھیں بے بہا
یہ خموشی یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
وائے یہ جاں بخش بستاں ہائے یہ رنگیں فضا
مر کے بھی ان کو نہ بھولے گا دل درد آشنا
مست کوئل جب دکن کی وادیوں میں گائے گی
یہ سبک چھاؤں ببولوں کی بہت یاد آئے گی
کل سے کون اس باغ کو رنگیں بنانے آئے گا
کون پھولوں کی ہنسی پر مسکرانے آئے گا
کون اس سبزے کو سوتے سے جگانے آئے گا
کون جاگے گا قمر کے ناز اٹھانے کے لیے
چاندنی راتوں کو زانو پر سلانے کے لیے
آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش
میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مے فروش
رس کی بوندیں جب اڑا دیں گی گلستانوں کے ہوش
کنج رنگیں میں پکاریں گی ہوائیں ‘جوش جوش
سن کے میرا نام موسم غمزدہ ہو جائے گا
ایک محشر سا گلستاں میں بپا ہو جائے گا
صبح جب اس سمت آئے گی برافگندہ نقاب
آہ کون اس دل کشا میداں میں چھیڑے گا رباب
اس افق پر شب کو جب انگڑائی لے گا ماہتاب
چاندنی کے فرش پر لہرائے گا کس کا شباب
جگمگائے گی چمن میں پنکھڑی کس کے لئے
رنگ برسائے گی ساون کی جھڑی کس کے لئے
گھر سے بے گھر کر رہی ہے آہ فکر روزگار
سرنگوں ہے فرط غیرت سے اب و جد کا وقار
خلعت ماضی ہے جسم زندگی پر تار تار
پھر بھی آنکھوں میں ہے آبائی عمارت کا خمار
شمع خلوت میں ہے روشن تیرگی محفل میں ہے
رخ پے گرد بیکسی شان ریاست دل میں ہے
کوچ کا پیغام لے کر آ گیا مہر منیر
گھر کا گھر ہے وقف ماتم زرد ہیں برنا و پیر
رخصت بلبل سے نالاں ہیں چمن کے ہم صفیر
آ رہی ہے کان میں آواز گویاؔ و بشیرؔ
چھٹ رہا ہے ہات سے دامن ملیح آباد کا
رنگ فق ہے عزت دیرینۂ اجداد کا
کیا بتاؤں دل پھٹا جاتا ہے میرا ہم نشیں
آئیں گے یاں خرمن اجداد کے جب خوشہ چیں
آ کے دروازے پہ جیسے ہی جھکائیں گے جبیں
گھر کا سناٹا سدا دے گا یہاں کوئی نہیں
جود و بخشش کا کلیجہ غرق خوں ہو جائے گا
میرے گھر کا پرچم زر سرنگوں ہو جائے گا
آہ اے دور فلک تیرا نہیں کچھ اعتبار
مٹ کے رہتی ہے ترے جور خزاں سے ہر بہار
نوع انساں کو نہیں تیری ہوائیں سازگار
فکر دنیا اور شاعر تف ہے اے لیل و نہار
موج کوثر وقف ہو اور تشنہ کامی کے لئے
خواجگی رخت سفر باندھے غلامی کے لئے
آ گلے مل لیں خدا حافظ گلستان وطن
اے ‘امانی گنج کے میدان اے جان وطن
الوداع اے لالہ زار و سنبلستان وطن
السلام اے صحبت رنگین یاران وطن
حشر تک رہنے نہ دینا تم دکن کی خاک میں
دفن کرنا اپنے شاعر کو وطن کی خاک میں
حسن اور مزدوری
ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار
چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا
گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں
ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو
کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو
دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت
ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت
پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی
نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی
غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے
عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے
چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب
ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب
اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں
آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!
حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے
دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے
فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار
جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار
آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے
صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے
اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے
جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے
بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے
جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے
نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار
ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار
کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے
انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے
مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے
جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے
فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے
جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے
نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ
کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟
ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر
سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر
باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا
آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا
سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی
اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی
جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا
اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا
اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟
آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟
گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟
اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟
سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟
پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟
دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے
اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے
ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا
باغ انسانی میں چلنے ہی پہ ہے باد خزاں
آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخش خود سری کی باگ پر
تیغ کا پانی چھڑک دو جرمنی کی آگ پر
سخت حیراں ہوں کہ محفل میں تمہاری اور یہ ذکر
نوع انسانی کے مستقبل کی اب کرتے ہو فکر
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے
ہندیوں کے جسم میں کیا روح آزادی نہ تھی
سچ بتاؤ کیا وہ انسانوں کی آبادی نہ تھی
اپنے ظلم بے نہایت کا فسانہ یاد ہے
کمپنی کا پھر وہ دور مجرمانہ یاد ہے
لوٹتے پھرتے تھے جب تم کارواں در کارواں
سر برہنہ پھر رہی تھی دولت ہندوستاں
دست کاروں کے انگوٹھے کاٹتے پھرتے تھے تم
سرد لاشوں سے گڈھوں کو پاٹتے پھرتے تھے تم
صنعت ہندوستاں پر موت تھی چھائی ہوئی
موت بھی کیسی تمہارے ہات کی لائی ہوئی
اللہ اللہ کس قدر انصاف کے طالب ہو آج
میر جعفرؔ کی قسم کیا دشمن حق تھا سراجؔ
کیا اودھ کی بیگموں کا بھی ستانا یاد ہے
یاد ہے جھانسی کی رانی کا زمانہ یاد ہے
ہجرت سلطان دہلی کا سماں بھی یاد ہے
شیر دل ٹیپوؔ کی خونیں داستاں بھی یاد ہے
تیسرے فاقے میں اک گرتے ہوئے کو تھامنے
کس کے تم لائے تھے سر شاہ ظفر کے سامنے
یاد تو ہوگی وہ مٹیا برج کی بھی داستاں
اب بھی جس کی خاک سے اٹھتا ہے رہ رہ کر دھواں
تم نے قیصر باغ کو دیکھا تو ہوگا بارہا
آج بھی آتی ہے جس سے ہائے اخترؔ کی صدا
سچ کہو کیا حافظے میں ہے وہ ظلم بے پناہ
آج تک رنگون میں اک قبر ہے جس کی گواہ
ذہن میں ہوگا یہ تازہ ہندیوں کا داغ بھی
یاد تو ہوگا تمہیں جلیانوالا باغ بھی
پوچھ لو اس سے تمہارا نام کیوں تابندہ ہے
ڈائرؔ گرگ دہن آلود اب بھی زندہ ہے
وہ بھگتؔ سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
اہل آزادی رہا کرتے تھے کس ہنجار سے
پوچھ لو یہ قید خانوں کے در و دیوار سے
اب بھی ہے محفوظ جس پر طنطنہ سرکار کا
آج بھی گونجی ہوئی ہے جن میں کوڑوں کی صدا
آج کشتی امن کے امواج پر کھیتے ہو کیوں
سخت حیراں ہوں کہ اب تم درس حق دیتے ہو کیوں
اہل قوت دام حق میں تو کبھی آتے نہیں
بینکی اخلاق کو خطرے میں بھی لاتے نہیں
لیکن آج اخلاق کی تلقین فرماتے ہو تم
ہو نہ ہو اپنے میں اب قوت نہیں پاتے ہو تم
اہل حق روشن نظر ہیں اہل باطن کور ہیں
یہ تو ہیں اقوال ان قوموں کے جو کمزور ہیں
آج شاید منزل قوت میں تم رہتے نہیں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اب کس لئے کہتے نہیں
کیا کہا انصاف ہے انساں کا فرض اولیں
کیا فساد و ظلم کا اب تم میں کس باقی نہیں
دیر سے بیٹھے ہو نخل راستی کی چھاؤں میں
کیا خدا ناکردہ کچھ موچ آ گئی ہے پاؤں میں
گونج ٹاپوں کی نہ آبادی نہ ویرانے میں ہے
خیر تو ہے اسپ تازی کیا شفا خانے میں ہے
آج کل تو ہر نظر میں رحم کا انداز ہے
کچھ طبیعت کیا نصیب دشمناں ناساز ہے
سانس کیا اکھڑی کہ حق کے نام پر مرنے لگے
نوع انساں کی ہوا خواہی کا دم بھرنے لگے
ظلم بھولے راگنی انصاف کی گانے لگے
لگ گئی ہے آگ کیا گھر میں کہ چلانے لگے
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزیدؔ و شمرؔ تھے اور آج بنتے ہو حسینؔ
خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں
———————————————————————
The post Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi appeared first on UrduChannel.
Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto
فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔
ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر’’ پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔۔۔۔فسٹ کلاس کھیل۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں!‘‘
بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’’پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔
فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔۔۔۔۔۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔
یہودی، پنجابی، مرہٹی،کشمیری،گجراتی،بنگالی،اینگلوانڈین،فرانسیسی،چینی،جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔۔۔۔۔۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔
اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔
اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔
آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت،گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا ۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔
اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔۔۔۔۔۔صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔۔۔۔۔۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔
میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتہ۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔
ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔
ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔
میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔
ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی،اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔
میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔
دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔۔۔۔
میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا۔’’آجاؤ!‘‘
دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔
اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔
وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔
قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔’’ آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے مختصر سا جواب دیا۔’’ممد بھائی!‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مشہور د ادا!‘‘
میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔’’ہاں ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ممد ہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کا مشہوردادا۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘
میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا’’ارے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تیرا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک دم جلدی آ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘
ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔ ۔۔۔لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔
کھولی میں کرسی نہیں ۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘
پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔
اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔۔۔۔۔۔نیفے میں۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘
ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘
چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔
ڈاکٹر آگیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔۔۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔
ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔۔۔۔۔۔سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ملیریا ہے۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔‘‘
ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔’’نہیں ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔’’تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔۔۔۔۔۔
’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔‘‘
ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔’’کیوں؟‘‘
’’بس۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔
ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا’’دس روپے!‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔
ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘
میں نے کہا۔’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘
ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘
ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہوگیا۔’’ میں کب لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے!‘‘
’’سالا۔۔۔۔۔۔ہم سے فیس لیتے ہو۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔
ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔
ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘
تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘
ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔۔۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘
میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘
سالا۔۔۔۔۔۔ہم کیا نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ کشمیری ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘
میں پانی پانی ہوگیا۔
ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔ تم خوش رہو۔‘‘
ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘
میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔
بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔
پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔
جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔
اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میںیہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔
لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔
میں جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘
ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ چیز۔۔۔۔۔۔یہ خنجر۔۔۔۔۔۔ یہ چھری۔۔۔۔۔۔یہ چاقو۔۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ آرٹ۔۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔۔۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔بندوق، پستول سب بکواس ہے۔‘‘
ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔
جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔
وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔
اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔
میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔۔۔۔۔۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔۔۔۔۔۔
ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔
میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔‘‘ ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ اس نے کہا’’ میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘
ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔’’جا۔۔۔۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘
اور اس کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔
ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔
دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی،انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔
چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔۔۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا۔۔۔۔۔۔لیکن مر گیا۔۔۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔
مقدمہ چلنا تھا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔
وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘
عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔
جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔
اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔۔۔۔۔۔مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔‘‘
اور وہ سوچتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔۔۔۔۔۔لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘
میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔۔۔۔۔۔سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہار خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘
’’تو میں منڈوادوں؟‘‘ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔
میں نے اس سے پوچھا۔’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘
میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘
دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔۔۔۔۔۔
مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔
عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔
شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔
اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔’’ کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘
اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘
مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘
اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔’’سالا۔۔۔۔۔۔ اپن کو یہ غم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘
پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘
مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا۔’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔۔۔۔۔۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔۔۔۔۔۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔۔۔سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔۔۔۔اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔ اب جا اپنی ماں کے۔۔۔۔۔۔‘‘
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔
————–
The post Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto appeared first on UrduChannel.
Dalan Wala A Short Story by Qurratul Ain Haider
The post Dalan Wala A Short Story by Qurratul Ain Haider appeared first on UrduChannel.
Patjhad ki Awaz A Short Story by Qurratul Ain Haider
The post Patjhad ki Awaz A Short Story by Qurratul Ain Haider appeared first on UrduChannel.
Tarekh E Zaban E Urdu
The post Tarekh E Zaban E Urdu appeared first on UrduChannel.
Intekhab E Kalam Nasir Kazmi
1
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
2
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں
رنج سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاک کوچۂ دلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
3
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
4
آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خواب شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے در و دیوار سا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے در کھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محمل عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگئ غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
5
مسلسل بیکلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے
میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے
چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے
نہ سمجھو تم اسے شور بہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کر رو رہی ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
6
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیق اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے الم حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوش جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھل گئی تری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شب فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
7
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی ہیں تمام رنگ میرے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
دیتے ہیں سراغ فصل گل کا
شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے
منزل نہ ملی تو قافلوں نے
رستے میں جما لیے ہیں ڈیرے
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
روداد سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
8
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
9
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دیا جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
10
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا
اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگ ریزہ جہاں پڑا دیکھا
کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا
The post Intekhab E Kalam Nasir Kazmi appeared first on UrduChannel.
Sham E Aitbar
✨”شام آفاق بنام اعتبار “✨
( گوونڈی میں شعری و اعزازی نشست )
گوونڈی 8 دسمبر 17 : شعبہ درس و تدریس بی ایم سی کے سرگرم معلم اور معمار کے اہم رکن مقصود آفاق کو ان کے شعری مجموعہ “اعتبار” کے لیے امسال مہاراشٹر اردو ساہتہ اکیڈمی کے ذریعے انعام سے نوازا گیا ہے ـ لہذا اس سلسلے میں معمار فاؤنڈیشن، ممبئی نے موصوف شاعر کے اعزاز میں ایک شعری و اعزازی نشست کا اہتمام بعنوان “شام آفاق بنام اعتبار “، گوونڈی (ممبئی ) میں کیا ـ عرفان سر تلاوت کلام پاک سے اس بزم آغاز کیا، وسیم شیخ نے اغراض و مقاصد پیش کیے اور پروگرام کو دو سیشن پر مشتمل کرنے کا اعلان کیا ـ پہلے سیشن میں بطور مہمان خاص تشریف فرما عارفہ شیخ سلیم (بی او ایم وارڈ ) نے اپنے تاثرات میں مقصود آفاق کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کو اپنے طلبا میں اتارنا بھی فن کے اہم مقاصد میں شامل ہے نیز یہ کہ علم و ادب میں سرگرم اشخاص کی خدمات کا اعتراف کرنا ایک بڑا کام ہے ایسی کاوشوں کے لیے وہ ہر طور معمار فاؤنڈیشن اور ان جیسے دیگر اداروں کے ساتھ ہیں جو اس طرز پر قائم ہیں ـ معروف شاعر و مترجم قاسم ندیم نے اپنے مقالے کے ذریعے شاعرِ ‘اعتبار’ کے فن کے تفہیمی پہلوؤں کو وا کیا تو نوجوان شاعر و ناقد محسن ساحل نے مقصود آفاق کے فن اور شخصیت پر اپنا مضمون پڑھا ـ عابد شیخ نے بطور ناشر اپنا مختصر مضمون پیش کیا جس میں انھوں نے مقصود آفاق کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا بھی مکمل احاطہ کیا ـ اس پروگرام کی صدارت فرما رہے ڈاکٹر قمر صدیقی نے شاعری کی روایتی روش، صالح اقدار، رجحانات، فن اور تخیلی شعور پر بھر پور روشنی ڈالی نیز مقصود آفاق کی شاعری سے متعلق کہا کہ مقصود کے حیطہ اظہار میں ہر طرح کا رنگ شامل ہے اگرچہ کہ حسن و جمال، عشق و رومان ، ہجر و وفا کے رنگ ان کی شاعری میں غالب رہے ہیں ـ
دوسرے سیشن میں ایک مختصر مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں صاحب اعزاز کے ساتھ ہی قمر صدیقی ، محسن ساحل ، اسماعیل راز، ارشاد راغب، علیم سر اور ذیشان ساحر جیسے شعراء نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ـ نظامت کے فرائض فروز قریشی اور محسن ساحل نے مشترکہ طور پر انجام دیے جبکہ اظہار تشکر وسیم شیخ نے پیش کیا ـ اس پروقار تقریب میں بی ایم سی کے اساتذہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ
The post Sham E Aitbar appeared first on UrduChannel.
Urdu Ki Kahani by Syed Ehtisham Husain
The post Urdu Ki Kahani by Syed Ehtisham Husain appeared first on UrduChannel.
Contribution of Hali A Brief View
حالی نے خود اپنے بارے میں کیا خوب بات کہی ہے
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ
یہ شاعرانہ تعلی نہیں ہے صاف اور کھلی حقیقت ہے ۔ اس دور میں حالی کے نایاب مال سے گاہک بے خبر تھے اور اس کی قدر و قیمت سے پوری طرح واقف نہیں تھے ، لیکن آج ادب کے بازار میں ان ہی کا مال انمول ہے ۔ اس دور کے بہت سے کھرے سکے کھوٹے ثابت ہوچکے ہیں اور حالی کے سکے کو بہت جلد کھرا مان لیا گیا اور آج تک اسی سکے کا چلن ہے ۔
حالی کے اثرات اردو شعر و ادب پر اتنے گہرے اور دیرپا ہیں کہ اس کا تجزیہ مختصر مضمون میں ممکن نہیں ۔ انھوں نے اردو ادب کے چمن میں جو نئے اور صحت مند پودے لگائے تھے ، وہ آج بھی پھل دار تناور درخت بنے کھڑے ہیں ۔ حالی وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے شاعری اور نثر کی کئی اصناف میں اپنی تخلیقات سے انقلاب پیدا کیا ۔ حالی سے پہلے یا ان کے بعد ہمیں بعض ایسی ادبی شخصیتیں نظر آتی ہیں جنھوں نے شاعری یا نثر کی کسی صنف کو نیا موڑ دیا اور اس کے دھارے بدل دئے ۔ چنانچہ انھیں اس صنف کی حد تک امام مانا گیا ، لیکن کسی کو حالی جیسا امتیاز حاصل نہیں ہوا، جنھیں کئی شعری اور نثری اصناف میں امام اور بانی کی حیثیت حاصل ہے۔
صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے کہ سادگی اور دردمندی حالی کی سیرت کی نمایاں خصوصیات تھیں اور ان کی تخلیقات میں یہ خوبیاںکوٹ کوٹ کر بھری ہیں اور حالی کا ادب حالی کی شخصیت اور سیرت کا عکس ہے ۔ ہمیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ کن باتوں اور کن شخصیتوں نے حالی کو حالی بنایا ۔ کس کے کہنے پر انھوں نے شاعری اور ادب کی خدمت کرنے پر توجہ دی ۔کن کن بزرگوں اور ہم عصر شخصیتوں نے ان کے ذوق شعری کو نکھارا اور کس کی تحریک نے حالی کو اپنی طرف کھینچا ۔
سب سے پہلے حالی کو غالب کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ جس وقت حالی غالب سے ملے اس وقت ان کی عمر 17 برس ہوگی ۔ حالی میں طبعی میلان اور شاعری کا جوہر دیکھ کر غالب نے خلاف معمول انھیں فکر شعر کی صلاح دی ۔ حالی کی نظر اور بصیرت کا کیا کہنا ۔ اپنی کم عمری اور غالب کی غیر مقبولیت کے باوجود انھوں نے غالب کی عظمت اور بڑائی کا صحیح اور بھرپور اندازہ کرلیا تھا ۔ حالی غالب کی شاعری کے دل سے معترف تھے ۔
حالی نے غالب سے زیادہ مصطفی خان شیفتہ کی صحبت سے فیض پایا ۔ شیفتہ کے خیالات اور مذاق نے حالی پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ۔
شیفتہ کے انتقال کے بعد حالی کو پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی ۔ یہاں انگریزی کتابوں کے اردو ترجموں کی اصلاح کا کام ان کے ذمے تھا ۔ یہاں چار برس کے قیام نے ادب کے بارے میں حالی کے خیالات ، نظریات اور مذاق میں بڑی تبدیلی پیدا کی ۔ جب حالی لاہور سے نکلے تو انہیں سرسید کی تحریک نے اپنی طرف کھینچا اور انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اس تحریک کی نذر کردیں ۔
حالی کا نظریہ یہ تھا کہ علم و ادب اور شعر و حکمت کے ذرائع کو اصلاح معاشرہ اور تہذیب اخلاق کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ استعمال کیا جانا چاہئے ۔ چنانچہ وہ جدید ادب کی تحریک کے علمبرداروں میں شامل ہوگئے کہ اردو شعر و ادب کے ان سانچوں کو بدلا جائے، جو نئے حالات و تصورات سے اب کوئی مطلب نہیں رکھتے جو فرسودہ اور ازکار رفتہ ہوچکے ہیں ۔ وہ ادیبوں ، شاعروں اور اردو کی علمی و ادبی سوسائٹی کو اس مصنوعی فضا سے نکالنا چاہتے تھے جہاں نئے افکار کا دم گھٹتا جارہا تھا۔
حالی کی خوبی صرف یہی نہیں تھی کہ وہ خواب ہی دیکھتے اور منصوبے بناتے تھے بلکہ حقیقی معنی میں عالم باعمل تھے اور اپنے خوابوں کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے مسلسل سرگرم عمل رہنا جانتے تھے ۔ انھوں نے ادب اور زندگی کے تعلق سے جو نیا سائنٹفک نظریہ اختیار کیا اسے انھوں نے اپنے ادب اور زندگی میں ایک مستقل اور باقاعدہ رویے کی شکل دی ۔ اگر حالی کی تخلیقی قوتیں اعلی پایے کی نہ ہوتیں تو ان کی نظم و نثر سپاٹ اور موضوعاتی چیزیں بن کر رہ جاتیں اور اس پر شعوری کوشش کا گمان ہوتا ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ حالی اپنی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک ایسے تخلیق کار بھی ہیں جن کی تخلیقی قوتوں کا سرچشمہ بہت دور تک اور بہت بڑے پیمانے پر علم و ادب کی پیاسی اور سنگلاخ زمین کو سیراب اور شاداب کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح خود یہ بات بھی اردو ادب کو حالی کی بڑی دین بن جاتی ہے ۔
شاعری کے بارے میں حالی کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ان کا یہ قطعہ بڑی مدد دیتا ہے ۔
اے شعر دل فریب نہ ہوتو تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو
صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو
جوہر ہے راستی کا اگر تیری ذات میں
تحسین روزگار سے ہے بے نیاز تو
حالی کے قیام لاہور کے دوران میں انجمن پنجاب کے زیر اہتمام مشاعرے منعقد ہوتے تھے ۔ ان میں مصرعہ طرح کی بجائے شاعروں سے کسی خاص عنوان پر طبع آزمائی کی درخواست کی جاتی تھی ۔
حالی اور آزاد نے بھی ان مشاعروں کے لئے نظمیں لکھیں ۔ ان کی نظمیں اردو میں ایک نئی چیز تھیں ۔
سرسید کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد حالی نے سنہ 1879ء میں مسدس حالی یا مدو جزر اسلام لکھی ، جو حالی کی شاعری کا بڑا کارنامہ ہے ۔ خلوص ، تاثیر اور شاعرانہ دردمندی کی ایسی مثال اردو کی کسی اور نظم میں مشکل سے ملے گی ۔ اس نظم کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ایسی شہرت اور مقبولیت بھی کسی اور نظم کو نصیب نہ ہوئی ۔ یہ نہ صرف اردو کی پہلی طویل نظم ہے بلکہ یہ پہلی مقصدی اور اصلاحی نظم ہے ۔ اس نظم سے اردو شاعری میں واقفیت ، افادیت اور اجتماعیت کے رجحانات آئے ۔ اس نظم نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا کہ شاعری سے اصلاح و انقلاب کا کام لیا جاسکتا ہے ۔ قاری اس نظم کے کسی حصے کو غیر دلچسپ نہیں پاتا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ساری نظم ایک ہی بحر میں ہونے کے باوجود حالی نے اس میں شروع سے آخر تک شعری آہنگ کو قائم رکھا ہے ۔ اس نظم کے بعد حالی نے کئی اور قومی نظمیں لکھیں ، جن میں مناجات بیوہ اور چُپ کی داد قابل ذکر ہیں ۔
حالی نے اپنی شاعری کا آغاز غزل گوئی سے کیا ۔ ابتدائی دور کی غزلوں میں روایتی رنگ پوری طرح موجود ہے ۔ زبان میں رنگینی اور دل کشی بھی ہے لیکن حالی غزل کے مخالفین میں سے تھے اور قدیم رنگ سخن سے سخت بیزار تھے ۔ چنانچہ لاہور سے دہلی آنے کے بعد 1875 ء سے انھوں نے نئے رنگ اور نئے انداز کی غزل گوئی کا آغاز کیا ۔ حالی کی جدید غزل اخلاقی اور اصلاحی خیالات کی ترجمان ہے ۔
عام طور پر حالی نے غزل میں علامتوں سے انحراف کیا ۔ غزل کی علامتیں نئے تجربوں اور تازگیٔ اظہار حائل ہورہی تھیں ۔ وہ اظہار کے لئے نئے امکانات کی جستجو میں تھے کیونکہ غزل کی علامتیں سیر پذیر نقطہ پر پہنچ چکی تھیں ۔ ہر انفرادی تجربہ مروجہ علامتوں کے استعمال کی وجہ سے فرسودہ معلوم ہوتا تھا ۔
ہر دانشور کی طرح وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے تجربوں میں پیرایۂ اظہار کی تازگی ہو اور انداز بیان دوسروں سے مختلف ہو ۔ ایک جیسے یا عام تجربے کو وہ انفرادی اظہار بیان کے ذریعے شاداب بنانا چاہتے تھے ۔ اس لئے انفرادیت کے اظہار کے لئے انھوں نے راست اظہار کا پیرایہ استعمال کیا ۔ حالی کی غزل سے روایتی علامتیں پوری طرح غائب نہیں ہیں ۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی غزل کا بنیادی instrument پرانی علامتیں نہیں ہیں ۔
حالی اردو میں جدید طرز کی سوانح نگاری کے بانی ہیں ۔ حالی نے جن اصولوں کو پیش نظر رکھ کر سوانحی تصانیف مرتب کیں اردو میں سوانح نگاری اسی راہ پر چل پڑی ۔ حیات سعدی ، یادگار غالب اور سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ کے بعد اردو میں ان شخصیتوں کی اس سے بہتر سوانح نہیں لکھی گئیں ۔ اردو میں یادگار غالب کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی غالب کی حیات اور شاعری پر قلم اٹھانا چاہے تو یادگار غالب سے رجوع ہوئے بغیر کام نہیں چلتا ، حالانکہ اس وقت غالب پر مضامین اور کتابوں کا انبار لگ چکا ہے ۔
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب سوانح نگار کسی ایسی بڑی شخصیت کی سوانح لکھتا ہے جو بقید حیات ہو یا جس سے مصنف کے تعلقات قریبی اور گہرے ہوں تو ایسی صورت میں سوانح نگار ایسے واقعات کے تذکروں کی بھرمار کردیتا ہے جن میں وہ بھی شریک ہے ۔ اس کی کتاب تصویروں کا ایسا البم بن جاتی ہے ، جس کی ہر تصویر میں مصنف خود موجود رہتا ہے ۔ حالی میں انکسار کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہے اور خود نمائی سے تو وہ کوسوں دور ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی سوانحی تصانیف میں اہم اور ضروری واقعات میں بھی اپنے تذکرہ کو شامل کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔
حالی سے پہلے اردو تنقید کا وجود باقاعدہ فن کے طورپر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ تذکروں یا دیگر تحریروں میں جو تنقیدی اشارے اور تنقیدی خیالات ملتے ہیں ان سے تنقید کے اصول وضع کرنا ممکن نہیں ۔ مقدمۂ شعر و شاعری تنقید کے میدان میں پہلی لیکن بہت اہم اور وقیع کوشش ہے ۔ حالی نے اپنے مقدمہ میں شعر کے بنیادی اصولوں اور شاعری کے مقصد پر بحث کی ہے ۔ شاعری کے بارے میں عام طور پر جو غیر صحت مند تصورات پائے جاتے تھے حالی نے انھیں دو رکرنے ، شاعری کے افادی پہلو کو واضح کرنے اور شاعروں کو حقیقت اور زندگی سے قریب کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے خیالات اور نظریات پر کافی غور و فکر کے بعد ان سے استفادہ کیا ۔ ان کی تنقید سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور آج تک اردو تنقید میں جو ارتقاء ہوا مقدمہ شعر و شاعری کا مرہون منت ہے ۔
سرسید نے پہلی بار رسالۂ تہذیب الاخلاق کے ذریعے اردو زبان کو توسیع دینے اور اسے ادبی اور علمی زبان بنانے کی شعوری کوشش کی تھی ۔ وہ اردو نثر کے ایک ایسے طرز کو مستقل طور پر رواج دینا چاہتے تھے جو رواں ، سلیس اور عام فہم ہو اور ساتھ ہی ساتھ علمی اور ادبی کاموں کے لئے موزوں بھی ہو ۔ سرسید کے رفقاء میں ان کی اس تحریک کو جس شخض نے سب سے زیادہ پروان چڑھایا وہ حالی ہیں ۔ حالی نے اس طرز تحریک کے ایسے کامیاب نمونے اپنی نثر کے ذریعے پیش کئے کہ سرسید کے مشن کی تکمیل ہوگئی ۔
حالی کے کئی ہم عصر صاحب طرز ادیب تھے لیکن حالی کے طرز اور اسلوب ہی کو مقبولیت اور بقائے دوام حاصل ہوا ۔
حالی نے شاعری کے لئے جو زبان استعمال کی ہے وہ بھی کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے ان کے یہاں لکھنؤ کی شاعری کی طرح دل کشی ، حسن اور نفاست نہیں ملے گی لیکن یہی کمی ان کی شاعری کا حسن ہے ۔ حالی کی شاعری کو پڑھنے والا خواہ وہ دہلی کا ہو یا لکھنؤ کا ، پنجاب کا ہو یا حیدرآباد کا بڑی آسانی سے شاعری کی بات سمجھتا اور سردھنتا ہے ۔ حالی کی زبان پر کسی خاص علاقے کی چھاپ نہیں ہے ۔ یہ وہ زبان ہے جو ساری اردو دنیا میں پڑھی اور سمجھی جاتی ہے ۔
اردو زبان اور ادب کی زلفیں سنوارنے والوں میں بہت سے نام ملتے ہیں لیکن حالی کا چہرہ بار بار سامنے آتا ہے ۔ اردو زبان اور اس کی ہمہ گیری کے لئے جس ادبی شخصیت نے سب سے زیادہ حصہ ادا کیا وہ بلاشبہ الطاف حسین حالی ہیں ۔
———————————————-
The post Contribution of Hali A Brief View appeared first on UrduChannel.
Qawaid E Urdu … Urdu Crammer
QawaidUrdu by Mulvi Abdul Haq-min
The post Qawaid E Urdu … Urdu Crammer appeared first on UrduChannel.
Sipar E Dil
The post Sipar E Dil appeared first on UrduChannel.
Dariya E Latafat
The post Dariya E Latafat appeared first on UrduChannel.
Intekhab E Kalam E Meer
The post Intekhab E Kalam E Meer appeared first on UrduChannel.
Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous
تیس سال کی عمر ہونے سے پہلے مجھے کوئی مشکل لاحق نہیں تھی۔۔۔! میں ایک عام انسان تھا، بزنس میں ڈپلوما حاصل کیا، سرکاری نوکری مل گئی، تنخواہ بھی معقول ہوگئی، ماہانہ پچیس پاؤنڈ تنخواہ تھی۔ اسٹیشن گراؤنڈ میں واقع ایک بڑی عمارت کی اعلی ترین منزل پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں سکونت پذیر تھا۔ زندگی میں زیادہ خواہشات نہیں تھیں، نہ میں کسی کو تنگ کرتا تھا نہ کوئی مجھے، نہ مجھے کسی کا احساس تھا نہ کسی کو میرا۔ ہاں، شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔۔۔!!
پھر ایک دن میرا رفیقِ کار استاذ عبد العظیم ایک بہت بڑی بہت ہی بڑی دوربین لے کر آیا۔ یہ دوربین ویسی نہیں تھی جیسی کہ گھوڑسواری مقابلہ کے شائقین استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک جنگی دوربین تھی جس کا استعمال افسران میدانِ جنگ میں کرتے ہیں۔ دوربین نہیں بلکہ کوئی جنگی ہتھیار معلوم پڑ رہی تھی۔ دوربین میں ایک ہی آنکھ تھی۔ لینس کو چھوٹا بڑا کیا جا سکتا تھا۔ لینس کی سیٹینگ کے لئے مخصوص گنتیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ دوربین نصب کرنے کے لئے ایک اسٹینڈ بھی تھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ دوربین میرے حواس پر چھا گئی۔۔۔!
معلوم نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ جب دوربین کو پکڑا تو یوں لگا کہ جیسے میں اس دوربین کو پا کر دنیا کا سب سے خوش و خرم انسان بن سکتا ہوں۔۔۔!
استاذ عبد العظیم مجھے دوربین کے طریقہ استعمال کے بارے میں بتانے لگا پھر اسے کھڑکی کے سامنے نصب کر دیا، اس کا لینس سیٹ کیا اور اس میں دیکھ کر چلایا:
– آ، دیکھ اس پٹاخہ کو جو کھانا پکا رہی ہے۔۔۔!
میں نے اپنی آنکھ دوربین پر رکھی اور استاذ عبدالمقصود سے پوچھا:
– کہاں، کہاں ہے وہ پٹاخہ؟
جواب میں استاذ عبد العظیم نے ساحۃ اسٹریٹ پر واقع ایک دوردراز عمارت کی جانب اشارہ کیا اور بولا:
– اس عمارت میں۔۔۔!
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔ہم وزارۃ کی کھڑکی سے لاظوغلی میدان کو دیکھ سکتے تھے۔ میرے اور اس کے درمیان ٹرام کے چار اسٹیشن واقع تھے، اس کے باوجود مجھے یہ لگ رہا تھا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھولوں گا۔۔۔!!
میں نے اپنی آنکھ پھر سے دوربین کے ساتھ لگادی۔۔۔وہ رہی اس کی اوڑھنی جس سے وہ اپنی زلفوں کو باندھے ہوئے ہے، پیلے رنگ کی اس کی گاؤن جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، اس کے پیروں کی جوتی بھی دکھائی دے رہی تھی، نہ صرف جوتی بلکہ اس کا رنگ بھی عیاں تھا، جوتی کا رنگ لال تھا۔۔۔مجھے وہ کھانا بھی دکھائی دے رہا تھا جسے وہ پکا رہی تھی۔۔۔بھنڈی پکا رہی تھی۔۔۔!
یاہو۔۔۔!
میں نے جب دوربین سے اپنی آنکھ ہٹائی تو میری سانسیں حیرت و استعجاب کے مارے اکھڑ رہی تھیں۔ میں نے استاذ عبد المقصود سے پھنسی پھنسی سی آواز میں پوچھا:
– بیچے گا؟
استاذ عبد المقصود سخت مٹی کا بنا ہوا تھا، نخرے دکھانے لگا، میں گزارش کرتا رہا بلکہ گڑگڑاتا رہا تب جا کر پگھلا۔ دس پاؤنڈ میں دوربین فروخت کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ طے یہ پایا کہ کل قیمت پانچ پانچ پاؤنڈ کے حساب سے دو قسطوں میں ادا کروں گا۔۔۔
میں نے دوربین یوں اٹھائی جیسے کہ میرا کل سرمایہ حیات ہو، اٹھا کر اسے اپنے گھر لایا اور بالکنی کی دیوار پر نصب کر دیا۔ دن کے بچے کھچے وقت میں اس کے لینس کو ہی سیٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔!!
اوہو۔۔۔!
اسٹیشن گراؤنڈ میں رہتے ہوئے 26 جولائی اسٹریٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے کمروں کے اندر کیا چل رہا ہے یہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ ریوولی سینما کے اوپر واقع نائٹ کلب کی شوخ سرگرمیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اور۔۔۔!
میں نے دوربین کا رخ اپنے اردگرد واقع گھروں کی جانب کر دیا، ان کی کھڑکیوں کے راستے!!
دوربین میں ایک جوان عورت دکھائی دی، اس کے پہلو میں ایک آدمی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، شاید اس کا شوہر تھا۔۔۔عورت مرد پر جھک جھک کر اس کے منہ میں نوالے ڈالتی، پھر اس کو بوسہ دیتی، مرد گھوم کر اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیتا اور بوسہ دیتا، پھر کھانا کھانے لگتا۔۔۔اور۔۔۔یہ کیا ہے؟!!!
ایک حسینہ اپنے کپڑے اتار رہی ہے، میری نظروں نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ کمرے سے غائب ہوگئی، شاید غسل خانہ میں چلی گئی تھی۔۔۔پھر آئی، شب بسری کا لباس زیب تن کیا اور بستر پر دراز ہوکر پڑھنے لگی۔۔۔کتاب کا ٹائٹل تھا: میرا اکلوتا پیار۔۔۔پھر لائٹ بجھ گئی۔۔۔!
اور۔۔۔
ایک بوڑھا آدمی تھا۔۔۔یونانی لگ رہا تھا۔۔۔زیتون کے تیل اور گوشت کے پارچہ سے تیار کردہ کھانا کھا رہا تھا، اس کے نزدیک اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی، اسی کی طرح عمردراز تھی، کھا نہیں رہی تھی، لیکن اس کی زبان چل رہی تھی۔۔۔بہت بولتی ہے یہ عورت۔۔۔!
میں چار بجے صبح تک دوربین سے اپنی آنکھ لگائے کھڑا رہا۔۔۔جب تمام روشنیاں بجھ گئیں اور دیکھنے کو کچھ نہ رہا۔۔۔تو میں بھی سو گیا۔۔۔
شاید میں سویا نہیں تھا۔۔۔میں نے صرف اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں تاکہ دیکھے ہوئے مناظر کو پھر اے دیکھ سکوں۔۔۔لوگوں کی نجی زندگی سے جڑے ہوئے مناظر باریک ترین تفاصیل کے ساتھ۔۔۔لوگ اپنی نجی زندگی میں نا، ایک عجیب و غریب اور دلچسپ مخلوق ہیں، گلیوں اور سڑکوں میں ملنے والے لوگوں سے بالکل مختلف۔۔۔!
میں نے سات بجے کراہتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور دوڑتے بھاگتے بالکنی تک پہونچا اور پھر دوربین پر نگاہ جما دی۔۔۔لوگ اچھل کود رہے تھے، اپنے چہرے دھو رہے تھے، کچھ پژمردہ تھے تو کچھ ہشاش بشاش۔۔۔!
کیا جانتے ہو کہ سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو ٹھیک اسی طرح بستر سے اترے جیسا کہ دوسرا اترتا ہے۔۔۔؟! کیا یہ بھی جانتے ہو کہ ایک بھی شوہر ایسا نہیں ہے جو صبح آنکھیں کھلنے پر اپنی بیوی کو بوسہ دیتا ہو۔۔۔؟! بلکہ سب سے پہلے وہ اپنا رخ اس کی جانب سے پھیرتا ہے۔۔۔! عجیب و دلچسپ زندگی ہے یہ لوگوں کی نجی زندگی بھی۔۔۔!! جب گھڑی کی سوئی آٹھ پر پہونچی تو میرے منہ سے ایک آہ نکلی۔۔۔آج کام پر پہونچنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔۔۔اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں کام سے لیٹ ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے جلدی سے کپڑا پہنا اور وزارۃ کی جانب چل دیا۔۔۔خلاف عادت ساتھیوں سے بات تک نہ کی۔۔۔میں اسی زندگی میں گردش کرتا رہا جسے میں نے دوربین سے دیکھا تھا۔۔۔بلکہ اپنے سامنے ڈھیر کی صورت میں پڑی فائلوں میں سے ایک بھی فائل پر توجہ مرکوز نہ کر سکا۔۔۔میرا دل کام سے اچاٹ ہوگیا تھا۔۔۔یہی انتظار کرتا رہا کہ کب گھر واپس جانے کا وقت ہو۔۔۔وقت ہوتے ہی گھر کی طرف مجنونانہ انداز میں دوڑا اور بھاگ کر دوربین پر آنکھ ٹکا دی۔۔۔
دن گزرتے گئے۔۔۔
میری پوری زندگی اسی تنگ لینس میں محصور ہو کر رہ گئی تھی جس کے سہارے میں لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکتا تھا۔۔۔میں نے ان لوگوں کو اس طرح جان لیا تھا جس طرح انہیں کوئی اور نہیں جانتا تھا اور جس طرح وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں جانے۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ہی رہ رہا ہوں۔۔۔میں ان میں سے ہر ایک کے لوٹنے کا وقت جان گیا تھا، یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور ان کی الماری میں کتنے جوڑے یا سوٹ ہیں۔۔۔ہر ایک کے مزاج کو پہچان گیا تھا۔۔۔ہر ایک کی انفرادیت بھی مجھ پر منکشف ہوگئی تھی۔۔۔مجھے اس کا بھی علم ہوگیا تھا کہ۔۔۔
مجھے اس کا بھی علم ہو گیا تھا کہ۔۔۔۔آہ۔۔۔مجھے ان کے بارے میں جو معلوم ہے، وہ مجھے بھی پوری طرح ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔۔۔اگر ان لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میں ان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں تو وہ مجھے جان سے مار ڈالنا چاہیں گے۔۔۔!
کبھی کبھی راستہ میں ان میں سے کسی کا سامنا ہو جاتا اور میں بے ساختہ ان سے مصافحہ کرنے کا ارادہ کرتا۔۔۔! مجھے لگتا کہ وہ میری زندگی کا حصہ ہے، میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح وہ خود کو نہیں دیکھ سکتا، بلکہ اس کی بیوی بھی اس کو اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔۔۔کبھی کبھی کسی کو وقار و ہیبت کے ساتھ چلتا دیکھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی۔۔۔جی بھر کر ہنستا۔۔۔یہ وہی ہے جسے میں نے کل اس کی بیوی کے پیروں پر پڑا دیکھا تھا۔۔۔کسی حسینہ کو ناز و نخرہ اور رعب و داب کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔۔۔یہ تو وہی ہے جس کو کل میں نے اس کے شوہر کے ساتھ دیکھا تھا، بے لگام و خونخوار جانور کی طرح تھا اس کا طرز ‘عمل’…!!!
دن گزرتے گئے۔۔۔!
میرے پاس دوربین کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔۔۔نہ دوست، نہ رشتہ دار، نہ احساس، نہ مزاج۔۔۔ نہ یہ۔۔۔نہ وہ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ہر چیز اسی دور بین میں مقید ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔!
پھر میں بیمار پڑگیا۔۔۔!
مجھے بستر سے اٹھ کر دوربین سے دیکھنے کی بھی تاب نہ رہی۔۔۔میرا وجود عذاب کی زد میں آ گیا۔۔۔مجھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے، میری حالت منشیات کے عادی ایسے شخص کی طرح ہوگئی جس پر منشیات نہ ملنے کی وجہ سے ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔۔۔!
لیکن اگلے دن دورہ کی شدت میں کمی آگئی۔۔۔اس کی جگہ بیماری کے آلام نے لے لی۔۔۔! میں بیحد بیمار ہو چکا تھا۔۔۔میں اپنے کمرے میں تنہا تھا۔۔۔مجھے ایک بھولی بسری ہوئی چیز یاد آگئی۔۔۔مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔۔۔ایک چیز اور یاد آئی، مجھے یاد آیا کہ میں بھولے بسرے ہوئے ملازمین کے زمرہ میں آ چکا ہوں۔۔۔مجھے بیس سے بھی زیادہ سالوں سے نہ تو کوئی ترقی ملی تھی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی اضافہ۔۔۔ہاں۔۔۔!
میں خود کو بھول چکا تھا۔۔۔!
میں اپنی خود کی زندگی بھول چکا تھا۔۔۔اور لوگوں کی زندگیوں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی زندگی کا ستیاناس کر چکا تھا!
وجہ۔۔۔؟!
وجہ یہ دوربین ہے۔۔۔!
میرے اندر دوربین کے خلاف غیظ و غضب کا طوفان امڈ پڑا۔۔۔میں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے ہی رہوں گا۔۔۔میں اسے توڑ کر ہی رہوں گا۔۔۔مجھے اپنی زندگی جینی ہوگی، دیگر لوگوں کی نہیں۔۔۔میں خود پر ضبط کرتے ہوئے اور درد و الم سے لڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بالکنی کی جانب بڑھا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے دوربین اٹھائی تاکہ اسے سڑک پر پھینک کر چکناچور کر دوں۔۔۔
لیکن۔۔۔
دوربین کو اس کی جگہ سے نکالنے سے پہلے میں نے اپنی آنکھ چھوٹے لینس پر ٹکا دی۔۔۔اور پھر اس کو وہاں سے ہٹا نہیں پایا۔۔۔۔!!!
معروف مصری افسانہ نگار احسان عبد القدوس کے اس افسانے کا ترجمہ جناب شمس الرب نے براہ راست عربی سے کیا ہے۔ شمس الرب ممبئی کے مہاراشٹر کالج میں عربی کے استاذ ہیں اور ترجمے پر قابلِ قدر دسترس رکھتے ہیں۔
——————————————————-
The post Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous appeared first on UrduChannel.
Cuddapah Mein Urdu by Rahi Fidai
The post Cuddapah Mein Urdu by Rahi Fidai appeared first on UrduChannel.
Russian Folk Tale
The post Russian Folk Tale appeared first on UrduChannel.
100 Famous City
Duniya ke Azeem Mazahib
The post Duniya ke Azeem Mazahib appeared first on UrduChannel.